کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین درج ذیل مسئلہ سے متعلق کہ جان مال کی حفاظت کی نیت سے جو صدقے نکالے جاتے ہیں ان صدقوں کے پیسوں کو کیا مسجد میں لگا سکتے ہیں ؟
قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
*المستفتی:*
ایک بندہ خدا ، واگرہ ، بھروچ ، گجرات ۔
*الجواب بعون الملک الوھاب* *اللھم ھدایة الحق والصواب*
جی ہاں ! لگاسکتے ہیں ۔ اس لیے کہ سوال میں مذکور صدقہ ۔ صدقہ نافلہ ہے ۔ اور صدقہ نافلہ ہر کار خیر جیسے مسجد ، مدرسہ وغیرہ سب میں لگا سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ لگانا نیکی اور ثواب کا کام ہے۔
*فقہائے کرام فرماتے ہیں:* کہ صدقہ کی دو قسمیں ہیں
(١) صدقہ واجبہ (٢) صدقہ نافلہ
(1)صدقہ واجبہ ، جس کا کرنا شریعت نے اس پر لازم کردیا ہو جیسے زکوۃ ، صدقہ فطر ، عشر ، منت کی رقم یا منت کی قربانی کا گوشت یا احرام کے کفارے کا گوشت وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے صدقات کی رقم مسجد میں نہیں لگا سکتے ۔
(٢) صدقہ نافلہ ۔ جس صدقے کا کرنا ، شرعا لازم نہ ہو ، بلکہ انسان خود اپنی مرضی سے ثواب حاصل کرنے کے لیے کرتاہے ۔جیسے کار و بار میں برکت کے لیے یا بلائیں ٹالنے کے لیے یاکسی کی مدد کے لیے وغیرہ وغیرہ ۔ اس طرح کے صدقات مسجد کو دینا ، نا صرف جائز بلکہ باعثِ اجر و ثواب ہے۔
*خلاصہ کلام یہ ہے* کہ زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ کی رقم مسجد میں دینا اور اسے مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے ، البتہ نفلی صدقات مسجد میں دینا اور ان کی رقم استعمال کرنا جائز ہے کوئی حرج نہیں ہے *فتاوی عالمگیری جلد اول ، کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف ، ص: ١٨٨/ میں ہے:*
میں ہے:
"لا يجوز أن يبني بالزكاة المسجد، وكذا القناطر والسقايات ، وإصلاح الطرقات ، وكري الأنهار ، والحج والجهاد ، وكل ما لا تمليك فيه ، ولا يجوز أن يكفن بها ميت ، ولا يقضى بها دين الميت كذا في التبيين''۔
یاد رہے کہ صَدَقے کی کئی اَقسام ہیں فرض صَدَقہ جیساکہ زکوۃ ، واجِب صَدقہ جیساکہ فطرہ اور دِگر صَدقاتِ واجبہ ۔
نفلی صَدَقہ جیسے کسی غریب قوم میں ثواب کی نیت سے رَقم دینا جسے اُردو میں خیرات کہا جاتا ہے یہ بھی صَدَقہ ہی ہے اس کے علاوہ صَدَقے کی بعض صورتیں اور بھی ہیں جیساکہ جان کا صَدَقہ دینا وغیرہ ۔ اگر جان کا صَدَقہ دینا ہو تو فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے کہ جان کے بدلے یوں جان کا صَدَقہ دیا جائے کہ حَلال جانور ذَبح کر کے دے دیا جائے۔ (فتاوی رضویہ ، ٢۴، / ١٨٦/ ماخوذاً)
*ہاں!* اگر سوال میں جان کے صدقہ سے مراد ”نذر کی رقم“ ہو ، مثلًا یہ نذر مانی ہو کہ اگر مجھے بیماری سے شفا ملی تو میں اللہ کے لیے مسجد میں اتنی رقم صدقہ کروں گا وغیرہ تو اس صورت میں وہ رقم فقراء کو دینا ضروری ہوگا ، مسجد میں دینا جائز نہیں ہوگا۔ فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
*کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــه:*
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ*
خادم التدریس والافتا دارالعلوم شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات،
٢٠/ربیع الاول ١۴۴٦/ ہجری
٢۴/ ستمبر ٢٠٢۴ عیسوی۔ بشب سہ شنبہ ، بوقت ٢/ بجے۔
0 Comments