مسلمان کا تجارت میں فوٹو بنانے کی مشین لگانا اور سٹوڈیوکھولنا کیسا ہے؟
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے کہ مسلمان کا تجارت میں فوٹو بنانے کی مشین لگانا، اسٹوڈیو کھولنا کیسا ہے؟
المستفتی:
سید حسن اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھہ شریف
الجواب بعون الملک الوھاب
اللھم ھدایة الحق والصواب
فوٹو دو طرح کے ہوتے ہیں ایک ذی روح یعنی جاندار جیسے انسان ، گائے ، بھینس ، گھوڑا ، کتا ، بلی وغیرہ کا فوٹو۔
اور دوسرا غیر ذی روح یعنی غیر جاندار جیسے پہاڑ ، جنگل ، نعلین شریف ، تاج ہوٹل وغیرہ کا فوٹو ۔
غیر جاندار کا فوٹو بنانا بالاتفاق جائز ہے۔ جب یہ جائز ہے تو پھر ایک مسلمان کے لیے اس کی تجارت میں فوٹو بنانے کی مشین لگانا بھی جائز ہے۔
*اب رہی بات جاندار کا فوٹو ؟ تو اس میں علما کا اختلاف ہے بعض علمائے کرام فرماتے ہیں :*
کہ ڈیجیٹل تصویر بنانا ، جائز ہے کیوں کہ وہ تصویر نہیں ہے عکس ہے لیکن جب وہ چَھپ جائے یعنی پرنٹ ہوجائے تو اب اس پر بھی تصویر کا اطلاق ہوگا اور جاندار کی تصویر بنانا حرام ہے۔ جب یہ حرام تو اس کی تجارت میں فوٹو بنانے کی مشین لگانا بھی ناجائز و حرام ہے۔ اس لیے کہ قرآن مقدسہ میں رب کا فرمان ہے۔ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان " یعنی گناہ اور سرکشی کے کام میں مدد نہ کرو ۔ اور کسی جاندار کے فوٹو بنانے اور اسے چھاپنے کی مشین لگانا ۔ یقینا گناہ پر مدد کرنا ہے جوکہ شرعا جائز نہیں ۔
اور وہ فوٹو جو کسی جاندار کا ہو اور وہ چھپ کر پرنٹ ہوجائے تو وہ بالاتفاق ناجائز و حرام ہے اور اسی قسم کے فوٹو سے متعلق احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ۔ (جو آگے ان شاء اللہ ہم پیش کریں گے)
*ہاں !* اگر پرنٹ نہ ہو صرف ڈیجیٹل طور پر ہو تو اس کی تجارت جائز ہے۔
*اور بعض علمائے کرام فرماتے ہیں :*
"جان دار کی تصویر سازی ، کسی بھی شکل میں ہو (متحرک ہو یا ساکن) کسی بھی طریقے سے بنائی جائے ، بناوٹ کے لیے جو بھی آلہ استعمال ہو ، کسی بھی غرض و مقصد سے تصویر بنائی جائے ، حرام ہے ، اس تنوع و اختلاف سے صورت گری اور تصویر سازی کے حکم میں کوئی فرق یا نرمی نہیں آتی ۔
لہذا کسی بھی جان دار کی تصویر کھینچنا ، بنانا یا بنوانا ناجائز اور حرام ہے ، خواہ اس تصویر کشی کے لیے مبائل یا اس کے علاوہ کوئی بھی آلہ استعمال کیا جائے جائز نہیں تصویر چاہے ڈیجیٹل یا غیر ڈیجیٹل سب ناجائز ہے"۔ ان علما کے نزدیک جب ڈیجیٹل غیر ڈیجیٹل ہر قسم کے جاندار کی تصویر ناجائز ہے تو پھر ان علما کے نزدیک جاندار کی تصویر کی تجارت بھی بہر صورت ناجائز ہوگی۔
*اور بعض علما یہ کہتے ہیں کہ* "اور جن چیزوں میں مقصود تصویر نہ ہو بلکہ تصویر اس میں تابع ہو جیسے بستہ ، پاؤچ وغیرہ تو ایسی چیزوں کو فروخت کرنا ناجائز نہیں ہے اور اس کی آمدنی بھی حرام نہیں ہے، البتہ احتیاط اس میں بھی یہ ہے کہ تصویر والی چیز بالکل فروخت نہ کی جائے۔
نیز وہ کہتے ہیں کہ جو تصویریں قالین اور تکیہ وغیرہ پر روند دیجاتی ہیں یا ڈیکوریشن پیس ہیں وہ ممنوع نہیں ۔ وہ اپنے اس قول پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ
*صحیح بخاری شریف میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :*
کہ انھوں نے اپنے دروازے پر پردہ لٹکایا جس میں تصاویر تھیں ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ پھاڑ دیا۔ اس سے میں نے دو گدے بنا لیے۔ آگے فرماتی ہیں:
فکانتا فی البيت يجلس عليها
(بخاری، الصحیح، ١: ٣٣٧)
دو گدےگھر میں تھے، ان پر سرکارِ دوعالم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھا کرتے تھے۔
اب اگر مطلقاً ہر تصویر حرام ہوتی تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام ان گدوں پر نہ بیٹھتے ، اور فرماتے کہ اس کو ختم کر دو ۔ مگر ایسا نہیں ہوا ، بلکہ سرکار دوعالم علیہ الصلوۃ والسلام ان گدوں پر بیٹھا کرتے تھے۔
مگر اس قول میں دم نہیں اس لیے کہ جب حضور ﷺ نے ان پرووں کو پھاڑدیا تو لامحالہ ان تصویروں کی ساخت بھی پھٹ گئی ہوگی ۔ اس کا نقشہ ہی بگڑ گیا ہوگا ۔ اور اس کی صورت و ہیئت بھی پھٹ کر اس قابل نہ رہی ہوگی جسے تصویر کہا جائے۔
جن جاندار کی تصویروں کی مسخ۔کردی جائے کہ ناک ، منہ ، کان وغیرہ کچھ ظاہر نہ ہو جیساکہ دعوت اسلامی والے نماز کی ترکیب سکھانے کے لیے کہ رکوع میں کتنا جھکنا ہے؟، سجدہ کس طرح کرنا ہے؟ بیٹھنا کس طرح ہے؟ مسخ شدہ تصویریں بائنروں میں چھپواکر مسجدون میں لگواتے ہیں وہ جائز اور اس کی تجارت بھی جائز ہے۔
*یاد رہے کہ* جن چیزوں کی تصویریں قانونی مجبوری کی طور پر بنائی جاتی ہیں مثلاً پاسپورٹ ، شناختی کارڈ ، آدھار کارڈ ، ووٹر آئی ڈی وغیرہ چوں کہ ان چیزوں کے لیے بوجہ ضرورت فوٹو نکالنا جائز ہے تو جب یہ جائز ہے تو فقط اسی مقدار اس کی فوٹو کاپی کرنے اور اس فوٹو کاپی کی تجارت کے لیے مشین لگانے کی بھی گنجائش ہوگی اس کے لیے ان چیزوں کے بنوانے والے کے حق میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔
*اور اب جاندار کی تصویر کسے کہتے ہیں اور غیر جاندار کی تصویر کسے کہیں تو اس کی وضاحت حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خاں یوں فرماتے ہیں:*
فتاویٰ رضویہ میں ہے :
“تصویر کسی طرح استیعاب مابہ الحیاۃ نہیں ہوسکتی فقط فرق حکایت و فہم ناظر کا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔ “ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد ٢۴/ص: ۵٨٧)
*فتاوی امجدیہ ، جلد چہارم ، ص: ٢٦/ میں ہے:*
"جانور کی تمثال حرام و ناجائز ہے غیر ذی روح کی تصویر میں کوئی قباحت نہیں" ۔
*عمدة الفقہاء حضرت علامہ مفتی آل مصطفٰی مصباحی علیہ الرحمہ فتاوی امجدیہ جلد چہارم میں تعلیقٙٙا لکھتے ہیں :*
"شرع مطہر میں جاندار کی تصویر حرام ہے اور غیر جاندار کی تصویر جائز ۔ جس طرح ذی روح کی تصویروں کی حرمت یقینی ہے یوں ہی غیر ذی روح کی تصویروں کا جواز اجماعی بکثرت حدیثیں اس کے جواز کی تصریح فرماتی ہیں ۔
روضہ منورہ ، نعلین مبارک کے نقوش و تصاویر و تماثیل بھی اسی جواز اجماعی میں داخل ۔ کس کے جواز میں اصلٙٙا کلام نہیں ، بہت سے علمائے کرام ، علمائے اعلام اور اکابرین دین و بزرگان معتمدین نے روضہ مبارکہ و نعلین اقدس کے نقشے بنائے اور ان کی تعظیم اور ان سے برکتیں حاصل کیں ۔ (تفصیل کے لیے زرقانی علی مواھب ، جذب القلوب ، فتاوی رضویہ وغیر کا مطالعہ کریں ) واللہ تعالی اعلم)"۔
*خلاصہ جواب یہ ہے کہ* غیر جاندار کا فوٹو بالاتفاق مطلقا جائز ہے چاہے وہ ڈیجیٹل ہو یا پرنٹ شدہ۔ جب یہ جائز تو اس کی تجارت بھی جائز ۔ اور کسی جاندار کا وہ فوٹو جو فقط ڈیجیٹل میں ہو تو وہ بعض علما کے نزدیک جائز ہے اس لیے کہ وہ در حقیقت فوٹو نہیں بلکہ عکس ہے۔ تو جب ڈیجیٹل فوٹو جائز تو اس کی تجارت بھی جائز اور پرنٹ شدہ فوٹو نہ بنانا جائز اور نہ اس کی تجارت جائز ۔
بعض علما کے نزدیک جاندار کی تصویر چاہے ڈیجیٹل ہو یا پرنٹ شدہ مطلقٙٙا ناجائز ہے۔ جب یہ مطلقا ناجائز تو اس کا بنانا اور تجارت کرنا دونوں ناجائز ہیں۔
اور وہ فوٹو جو کسی جاندار کا ہو اور وہ چھپ کر پرنٹ ہوجائے تو وہ بالاتفاق ناجائز و حرام ہے جیساکہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اور اس طرح کے فوٹو سے متعلق احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں چناں چہ
*صحیح بخاری شریف میں اس پر دس ابواب مذکور ہیں*:
ہم چند احادیث ان میں سے نقل کرتے ہیں عن أبي طلحة مرفوعاً: لا تدخل الملائکة بیتاً فیہ کلب ولا تصاویر ۔
(اخرجہ البخاری ، باب التصاویر) جس گھر میں کتا یا تصویر ہو اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
قال عبد اللہ بن مسعود مرفوعاً: إن أشدّ الناس عذابًا عند اللہ المصورون ۔
قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت ترین عذاب تصویر سازوں کو ہوگا۔
نیز معذب اقوام کا عبرتناک انجام قرآن مجید نے مفصل بیان کیا ہے، ان میں کفر وشرک کی گمراہی تصویر کے راستے ہی سے درآئی تھی۔
چناں چہ صحیحین کی حدیث ہے:
"أولٰئک إذا مات فیھم الرجل الصالح بنوا علی قبرہ مسجدًا ثم صوروا فیہ تلک الصّور أولئک شرائر خلق اللہ۔
اھل کتاب میں جب کوئی نیک آدمی دنیا سے رخصت ہوجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے پھر اس میں یہ لوگ تصویریں رکھتے، یہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں بدترین مخلوق ہیں۔
*اور اسی صحیح بخاری کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ* ”جو شخص دنیا میں کوئی (جاندار) کی تصویر بنائے گا ، قیامت میں اُس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اُس میں روح ڈالے ، لیکن وہ ہر گز نہیں ڈال سکے گا“ (اس پر اُس کو شدید عذاب ہوگا ۔ قال النبی ﷺ :
"من صور صورةً في الدنیا ،کلف یوم القیامة ان ینفخ فیھا الروح و لیس بنافخ ۔ (صحیح البخاري، باب بیان عذاب المصورین یوم، القیامة)
اور امام عینی توضیح کے حوالہ سے فرمایا:
"قال اصحابنا و غیرھم تصویرُ صورة الحیوان حرام أشد التحریم و ھو من الکبائر و سواء صنعہ لما یمتھن او لغیرہ فحرام بکل حال ، لان فیہ مضاھات بخلق اللّٰہ۔۔۔۔ اما مالیس فیہ صورة حیوان کالبحر ونحوہ ، فلیس بحرام ، و بمعناہ قال جماعة العلماء مالک و سفیان وأبو حنیفة و غیرھم۔
(عمدة القاری : ۱۰/ ۳۰۹، باب عذاب المصورین یوم القیامة)
*اور امام نووی نے فرمایا ہے:*
" تصویرُ صورة الحیوان حرام شدید التحریم ، وھو من الکبائر لأنہ متوعد علیہ بھذا الوعید الشدید المذکور فی الأحادیث۔۔۔۔۔۔ الخ۔ (النووي علی مسلم جلد ثانی/ ص: ۱۹۹۔ و کذا في رد المحتار مع الدرالمختار ، جلد ثانی، مطلب اذا تردد الحکم بین سنة و بدعة ، ص: ۴٠٢ ، و فتاوی عالگیری ، جلد پنجم ، ص: ۳۷۹/، و بدائع الصنائع جلد اول ، ص: ١١٦)
*البتہ ضرورتِ شدیدہ کے وقت تصویر کھنچوانے کی گنجائش ہے جیساکہ سطور بالا میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔*
*اب رہی بات یہ اسٹوڈیو کھولنا کیس؟* تو اس بارے حکم یہ ہے کہ فی نفسہ اسٹوڈیو کھولنے میں کوئی حرج نہیں ۔ البتہ اگر اس کا غلط استعمال کیا جائے ، اسے غلط کاموں میں لگایا جائے ، غلط مناظر دکھائے جائیں ، غلط بیانات وائرل کئے جائیں ، المختصر ایں کہ اگر اسٹوڈیو غیر شرعی پروگرامات جیسے گانا ، ناچ ، ڈانس وغیرہ چلانے کے ارادے سے کھولا گیا تو وہ ناجائز اور اگر شرعی دینی پروگرام جیسے نعت و منقبت ، وعظ و نصیحت و دگر جائز کاموں کے لیے کھولا جائے تو جائز ہے بلکہ ایسے نیک کاموں کے لیے اسٹوڈیو کھولنا باعث اجر و ثواب ہے۔فقط واللہ و رسولہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم و احکم ۔
*کتبــــــــــــــــــــــــــــــــــــبه:*
*محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ*
خادم التدریس والافتا دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا ، وخطیب و امام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات ۔
٢٧/ربیع الآخر ١۴۴٦/ ہجری
٣١/ اکتوبر ٢٠٢۴ عیسوی۔
0 Comments