اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سال کے بارہ مہینوں میں سے "محرم الحرام" کو خصوصی تقدس حاصل ہے، جس کا آغاز ہی ہمیں نیکی، صبر، قربانی اور استقامت کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ اس ماہ کی دسویں تاریخ، یعنی یومِ عاشورہ، اسلامی تاریخ کا ایک غیرمعمولی دن ہے۔ اس دن کے روزے کو رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف خود اپنایا بلکہ اُمت کو بھی اس کی ترغیب دی۔ عاشورہ کے روزے کی فضیلت متعدد احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے، جن کی بنیاد پر اس دن کا روزہ نفلی عبادات میں سے ایک افضل عبادت شمار ہوتا ہے۔
یومِ عاشورہ کی تاریخی اور مذہبی اہمیت:
"عاشورہ" کا لفظ "عشر" سے نکلا ہے، جس کے معنی "دس" کے ہیں، کیونکہ یہ دن محرم کی دسویں تاریخ کو آتا ہے۔ متعدد روایات کے مطابق اس دن کئی اہم واقعات پیش آئے:
حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی
حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر آکر ٹھہری
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت بھی اسی دن ہوئی
یہ دن اہلِ ایمان کے لیے صرف غم و ماتم کا دن نہیں بلکہ سبق، عبرت اور قربانی کا پیغام لیے ہوئے ہے۔
عاشورہ کے روزے کی فضیلت احادیث کی روشنی میں:
1. سال بھر کے گناہوں کا کفارہ:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
صِیَامُ یَوْمِ عَاشُورَاءَ إِنِّي أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ
میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشورہ کا روزہ گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔"یہ حدیث اس روزے کی عظمت اور روحانی برکت کو اجاگر کرتی ہے۔
2. رسول اللہ ﷺ کا مستقل معمول:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
ما رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ يَتَحَرَّى صِيَامَ يَوْمٍ فَضَّلَهُ عَلَى غَيْرِهِ إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ، يَوْمَ عَاشُورَاءَ
میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی روزے کی اتنی رغبت کرتے نہیں دیکھا جتنی عاشورہ کے روزے کی فرماتے تھے۔(صحیح بخاری، حدیث: 2006) یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ ﷺ عاشورہ کے روزے کو خاص اہتمام سے رکھتے تھے۔
3. یہود سے امتیاز کی تعلیم:
نبی کریم ﷺ نے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا، تو فرمایا:
نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ
ہم موسیٰ (علیہ السلام) کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا۔ بعد میں فرمایا:
لَئِنْ بَقِيتُ إِلَىٰ قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ
اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں (تاسوعا) کا بھی روزہ رکھوں گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام محض عبادات نہیں، بلکہ ان میں "تشخص" اور "امتِ وسط" کا شعور بھی پیدا کرتا ہے۔
فقہی رائے:
عاشورہ کا روزہ رکھنا سنت ہے، فرض نہیں۔
نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کو روزہ رکھنا افضل ہے۔
صرف دسویں تاریخ کا روزہ بھی جائز ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے ایک روز پہلے یا بعد کا بھی روزہ رکھا جائے۔
نوٹ:
یومِ عاشورہ کا روزہ نہ صرف ہمارے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے بلکہ اس دن ہمیں کئی انبیائے کرام کی سنتوں کی یاد دہانی بھی کرواتا ہے۔ یہ دن نبی کریم ﷺ کی محبت اور امت کے لیے آپ کی ہدایت و امت سازی کا عملی نمونہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس دن روزہ رکھ کر نجات کے اسباب اختیار کریں، خوداحتسابی کریں، اور اہلِ حق کی قربانیوں سے سبق حاصل کریں۔
دعا:
"اے اللہ! ہمیں محرم کی برکتوں سے مستفید فرما، عاشورہ کے روزے کے اجر سے مالامال فرما، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی قربانی کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھ کر ہمیں حق پر استقامت نصیب فرما۔ آمین!"
0 Comments