مروجہ تعزیہ داری کی شرعی حیثیت
محرم الحرام,اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے، جس کی حرمت، عظمت اور فضیلت قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ اس ماہ میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہل بیتِ اطہار کی عظیم قربانی کو یاد کرنا اہلِ سنت و جماعت کے نزدیک باعثِ ثواب ہے، مگر اس یاد کو منانے کے جو طریقے عوام میں رائج ہو چکے ہیں، جیسے تعزیے نکالنا، جلوس کرنا، سینہ کوبی کرنا، زنجیر زنی کرنا، اور تعزیے کو سجدہ کرنا ,ان تمام کا شریعتِ مطہرہ میں کوئی ثبوت نہیں۔
تعزیہ داری کی ابتداء
تاریخی طور پر تعزیہ داری کی رسم بعد کے ادوار میں ایجاد ہوئی۔ اسے پہلے پہل شیعہ حضرات نے امام حسینؓ کے غم میں رائج کیا، اور وقت کے ساتھ یہ رسم سنی معاشرے میں بھی در آئی، لیکن اہلِ سنت بریلوی علما نے اس میں پائے جانے والے غیر شرعی امور پر تنبیہ فرمائی اور ان سے بچنے کی تعلیم دی۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا مؤقف
سنی بریلوی مکتبہ فکر کے سب سے بڑے امام،امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے مروجہ تعزیہ داری کو واضح الفاظ میں بدعت، ناجائز اور بعض صورتوں میں گناہ کبیرہ قر ار دیا۔
فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں:
"مروجہ تعزیہ داری جس میں تعزیے بنائے جاتے ہیں، ان کی پرستش کی جاتی ہے، انہیں سجدہ کیا جاتا ہے، ان پر چراغاں کیا جاتا ہے . یہ سب بدعاتِ سیئہ (بری بدعتیں) ہیں، ان کا دین اسلام سےکوئی تعلق نہیں۔"
سنی بریلوی علما کے دیگر فتاویٰ
صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضی اللہ عنہ
آپ اپنی مشہور کتاب "بہارِ شریعت" میں فرماتے ہیں:
"تعزیہ نکالنا، اس کی تعظیم میں کھڑے ہونا، اس پر پھول چڑھانا، یا اس کو متبرک سمجھنا — سب ناجائز ہیں، اور ان میں بعض افعال شرک کی طرف لے جانے والے ہیں۔"
علامہ نعیم الدین مراد آبادیؒ
آپ نے بھی اپنی تفسیر "خزائن العرفان"اور دیگر رسائل میں اس بات کو واضح کیا کہ
"محبتِ اہلِ بیت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بدعت و خرافات کو فروغ دیا جائے۔ تعزیہ داری کا موجودہ انداز دین میں اضافہ ہے، اور قابل ترک ہے۔"
مروجہ تعزیہ داری میں پائے جانے والے شرعی خرابیاں
1: سجدۂ تعزیہ: تعزیے کو سجدہ کرنا شرک کے قریب عمل ہے۔
2: مقدس سمجھنا:تعزیے کو تبرک سمجھنا، اس سے مراد لینا,شرعی توحید کے خلاف ہے۔
3: اختلاطِ مرد و زن: جلوسوں میں بے پردگی، ناچ گانا، ڈھول تاشے ,فحاشی اور فسق و فجور ہے۔
4: نیا دین ایجاد کرنا: دین میں ایسا عمل جس کی نہ کوئی اصل ہو، نہ صحابہ و اہلِ بیت کا عمل ہو، وہ بدعت ہے۔
محبتِ اہلِ بیت کا درست طریقہ
اہلِ سنت بریلوی مکتبہ فکر محبتِ اہلِ بیت کو ایمان کا حصہ مانتا ہے، مگر اس محبت کا اظہار شرعی حدود میں رہ کر ہونا چاہیے:
✅ حضرت امام حسینؓ اور شہداء کربلا کے واقعات بیان کیے جائیں
✅ مجالسِ ذکر و نعت منعقد کی جائیں
✅ صدقات و خیرات کیے جائیں
✅ عاشورہ کا روزہ رکھا جائے (9 و 10 محرم یا 10 و 11 محرم)
خلاصہ:
سنی بریلوی مکتبہ فکر کے نزدیک مروجہ تعزیہ داری، جس میں بدعت و خرافات، غیر شرعی رسومات، اور بعض جگہوں پر شرک و فسق تک کے امور شامل ہو جاتے ہیں ناجائز، ممنوع اور قابل ترک ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ہم محبتِ اہلِ بیت کو سنتِ رسول ﷺ اور اقوالِ علما اہلِ سنتکے مطابق اپنائیں اور ہر قسم کی بدعت و رسمِ باطل سے دور رہیں
0 Comments