*اتحادِ امت: ماضی کا سبق، حال کی ضرورت، مستقبل کی ضمانت
اسلام کی تاریخ دراصل انسانیت کی نجات کی کہانی ہے۔ عرب کے ریگزاروں سے اٹھنے والی ایک بظاہر کمزور قوم نے جب قرآن و سنت کو اپنی زندگی کا مرکز بنایا، تو دنیا کی تقدیر بدل دی۔ وہی لوگ جو قبائلی جھگڑوں اور خونریزی میں ڈوبے ہوئے تھے، رسول اکرم ﷺ کی قیادت میں ایسا معاشرہ بن گئے جس کی بنیاد عدل، مساوات اور اخوت پر تھی۔
یہی روح بدر و احد کے معرکوں میں بھی دکھائی دی اور یہی جوش اندلس، بغداد اور عثمانیہ خلافت کے ادوار میں نظر آیا۔ مسلمان جہاں گئے، علم و تہذیب کے چراغ روشن کیے، عدل قائم کیا اور انسانیت کو نئی زندگی بخشی۔ قرطبہ کی درسگاہوں نے یورپ کے اندھیروں کو روشنی میں بدلا اور بغداد کی بزمِ علم نے دنیا کو سائنس، فلسفہ اور طب کے نئے خزانے دیے۔
مگر جب امت نے قرآن و سنت سے رشتہ ڈھیلا کیا اور دنیاوی خواہشات میں الجھ گئی، تو بکھر گئی۔ قومیت، نسل پرستی اور فرقہ واریت نے مسلمانوں کو اندر سے کمزور کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خلافتیں ٹوٹ گئیں اور امت ایک ایسے جسم کے مانند رہ گئی جس میں جان نہ رہی۔
برصغیر کی تاریخ بھی یہی سبق دہراتی ہے۔ محمد بن قاسم کی عدل پر مبنی حکومت سے لے کر دہلی کے دربار اور لکھنؤ کی تہذیب تک، مسلمانوں نے ہر میدان میں اپنی چھاپ چھوڑی۔ لیکن جب غلامی کا دور آیا تو انگریز نے نہ صرف ہماری سلطنت چھینی، بلکہ ہمارے ذہنوں کو بھی غلام بنانے کی کوشش کی۔ پھر بھی مسلمانوں نے سب سے زیادہ قربانیاں دیں—آزادی کے لیے جان بھی دی، مال بھی، اور عزت بھی۔
آزادی کے بعد امید تھی کہ مسلمان امن اور برابری کے ساتھ جیئیں گے، لیکن حالات نے نیا رخ اختیار کیا۔ آج پھر مسلمان تعصب کا شکار ہیں؛ کبھی طلاق اور حجاب کے نام پر نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی مدارس و مساجد پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں، اور کبھی بے قصور نوجوانوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ حالات ہمیں ایک ہی پیغام دیتے ہیں:
اگر ہم بیدار نہ ہوئے تو ہمارا وجود خطرے میں ہے۔
یہ وقت ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنی اصل طاقت یعنی علم، کردار اور اتحاد کو دوبارہ زندہ کریں۔ دشمن ہمیں شیعہ، سنی یا دیوبندی، بریلوی نہیں دیکھتا—وہ صرف "مسلمان" سمجھ کر وار کرتا ہے۔ جب زخم سب پر لگتے ہیں تو مرہم بھی سب کو مل کر لگانا ہوگا۔
اب ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم صرف ماضی کی داستان ہیں یا حال اور مستقبل کی قوت بھی ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم، خود اعتمادی اور اتحاد کا ہتھیار دینا ہوگا۔ اقبال نے کہا تھا:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر ہم آج متحد ہو جائیں، تو نہ صرف اپنا وقار واپس پا سکتے ہیں، بلکہ دنیا کو پھر دکھا سکتے ہیں کہ مسلمان محض تاریخ نہیں، بلکہ روشن مستقبل کا پیغام بھی ہیں۔
ورنہ اگر ہم نے یہ موقع کھو دیا، تو ہماری نسلیں ہمیں صرف ایک کھوئی ہوئی امت کے طور پر یاد کریں گی۔
محمد فیروز عالم علاںٔی
![]() |
*اتحادِ امت: ماضی کا سبق، حال کی ضرورت، مستقبل کی ضمانت |
0 Comments