کیا حیلہ کرنا ازروے شرع درست ہے؟ حیلہ اسقاط کیا ہے؟حیلہ کی تعریف،حیلہ کی شرعی حیثیت، مکمل تحقیق ملاحضہ کریں۔۔۔۔ قمر جامعی

سوال: کیا حیلہ کرنا ازروے شرع درست ہے؟ اگر نہیں ہے تو حیلہ کرنے والے پر شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور اگر درست ہے تو اس کا طریقہئ کا ر کیا ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب: حیلہ اگر جائز طریقہ سے شریعت کے عین مطابق کیا جائےتواس میں کوئی قباحت نہیں ہے،بلکہ بعض جگہوں میں حیلہ کرنا مستحب یا پھر واجب۔اور باطل طریقہ سے حیلہ کرنا ناجائز و حرام ہے اور حیلہ کرنے والا سخت گنہگار ہوگا۔

آیئے!حیلہ کی تعریف و اقسام اور ثبوت پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔

حیلہ کی تحقیق قرآن و حدیث کی روشنی میں

حیلہ کی تعریف اورا س کی اقسام :

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

کسی خفیہ طریقے سے مقصود کے حاصل کرنے کو حیلہ کہتے ہیں۔علماء کے نزدیک اس کی کئی قسمیں ہیں... 

اول: اگر جائز طریقہ سے کسی حق (خواہ اللہ تعالیٰ کا حق ہو جیسے زکوۃ یا بندہ کا حق ہو)باطل کیا جائے یا کسی باطل (مثلا  سود،رشوت یا پگڑی وغیرہ)کوحاصل کیا جائے تو یہ حیلہ حرام ہے۔

دوم: اگر جائز طریقہ سے کسی حق کو حاصل کیا جائے یا کسی باطل یا ظلم کو دفاع کیا جائے تو حیلہ مستحب یا واجب ہے۔

سوم: اگر جائز طریقہ سے کسی ضرر سے محفوظ رہا  جائے تو یہ حیلہ مستحب یا مباح ہے۔

چہارم: اگر جائز طریقہ سے کسی مستحب کو ترک کرنے کا حیلہ کیا جائے تو یہ مکروہ ہے۔

(فتح الباری ج ۱۱ ص۲۶۳،مطبوعہ دار النشر الکتب الاسلامیہ،لاہور)

قرآن و سنت میں حیلہ کا ثبوت

حیلہ کی اصل قرآن مجید کی اس آیت میں ہے۔

وخذبیدک ضغثا فاضرب بہ ولاتحنث(ص،۴۴)اور(اے ایوب! آپ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کی ایک جھاڑو لے لیں،پھر اس سے ماریں اور اپنی قسم نہ توڑیں۔

حضرت ایوب علیہ السلام کسی وجہ سے اپنی بیوی سے ناراض ہوگئے اور یہ قسم کھالی کہ وہ صحت مند ہونے کے بعد اپنی بیوی کو سو کوڑے ماریں گے،صحت مند ہونے کے ان کو ئی پریشانی ہوئی کہ اگر،یں قسم پوری کرتا ہوں تو میری خدمت گزار بیوی کو اذیت پہنچے گی اور اگر نہیں مارتا یوں تو قسم ٹوٹ جائے گی،تب اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ حیلہ بتایا کہ وہ سو تنکوں کی ایک جھاڑو لے کر ان کو ماریں،اس طرح آپ کی قسم بھی پوری ہوجائے گی اور آپ کی بیوی بھی اذیت پہنچنے سے محفوظ رہے گی۔

حیلہ کے جواز کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت یوسف اپنے بھائی  بنیامن کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے تو ان کے شاہی کارندے نے شاہی پیمانہ بنیامن کے سامان میں ررکھ دیا اور اس ملک کا قانون یہ تھا کہ جس شخص کے پاس سے مال مسروقہ برآمد ہو تو بطور سزا اس کو مالک کے حوالے کر دیا جاتا تھا،سو جب بنیامن کے سامان سے وہ شاہی پیمانہ بر آمد ہوا تو ان کو حضرت یوسف علیہ السلام کے حوالہ کردیا گیا۔قرآن مجید میں ہے:

کذٰلک کدنالیوسف ماکان لیاخذاخاہ فی دین الملک الا ان یشاء اللہ۔(یوسف:۶۷)    اسی طرح ہم نے یوسف کوتدبیر بتائی،وہ اپنے بھائی کو شاہی قانون کی وجہ سے نہیں لے سکتے تھے مگر یہ کہ ا للہ چاہے۔

حیلہ کا ثبوت احادیث سے۔

انصار میں سے ایک شخص بیمار ہوگیاحتیٰ کہ وہ بہت کمزور ہوگیااور اس کی کھال ہڈیوں سے چپک گئی،اس کے پاس انصار کی ایک باندی آئی جس پر وہ فریفتہ ہوگیااور ہشاش و بشاش ہوگیااور اس نے جنسی عمل کرلیا،پھر جب اس کے قبیلہ کے لوگ اس کے پا س عیادت کیلئے آئے تو اس نے کہا: رسول اللہ ﷺ سے میرے متعلق حکم معلوم کروکیوں کی میں نے اس باندی سے جماع کرلیا ہے،صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور کہا: ہم نے اس جتنا بیمار شخص اور کوئی نہیں دیکھا،اگر ہم اس کو اٹھا کر آپ کے پاس لائیں تو اس کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی،اس کی ہڈیوں پر کھال لپٹی ہوئی ہے،رسول ﷺ نے حکم دیاکہ ایک گچھالے آؤ اور اس پر اس کی ایک ضرب مارو۔  (سنن ابو داؤد  ج۲ ص ۸۵۲)

امام ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،اس میں ہے کہ پتلی پتلی سوشاخوں کا ایک گچھا لے آؤ اور اس پر اس کی ایک ضرب مارو(ابن ماجہ ص ۵۸۱)

امام احمد نے بھی اس حدیث کو سعد بن عبادہ سے اسی طرح روایت کیا ہے،امام ابن عساکر نے بھی اس حدیث کو حضرت سعد ابن عبادہ سے روایت کیا،اور امام بخاری روایت کرتے ہیں:

حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہماروایت بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو خیبر کاعامل مقرر کیا،وہ آپ کے پاس عمدہ کھجوریں لے آیا،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا خیبر کی ساری کھجوریں اسی طرح ہیں؟اس نے کہا نہیں۔بخدا رسول اللہ ﷺ! ہم دو صاع کھجوریں دے کر یہ ایک صاع لیتے ہیں،یا تین صاع کھجوریں دے کر یہ کھجوریں دوصاع لیتے ہیں۔آپ نے فرمایا: اس طرح نہ کرو سب کھجوریں دراہم کے عوض بیچو اور عمدہ کھجوریں دراہم کے عوض خریدلو۔(صحیح بخاری ج ۱ ص ۳۹۲)

اس حدیث میں آپ نے سود سے بچنے کا حیلہ بیان فرمایاہے۔

فقہاء کرام کے بیان کئے ہوئے بعض حیلے

علامہ سرخسی لکھتے ہیں:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا:میں نے قسم کھائی ہے کہ اگر میں نے اپنے بھائی سے بات کی تو میری بیوی کو تین طلاقیں ہوں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن دے دو اور اپنے بھائی سے کلام کرلو اورپھر بیوی سے دوبارہ نکاح کرلو۔ (المبسوط ج ۳ ص۹۰۲)

زکوٰۃ میں تملیک شرط ہے،اگر کوئی شخص کسی کومثلا ہزار روپے بطورقرض دیاہے،اور اس کو ہزار روپے کی زکوٰ ۃ بھی نکالنی ہے تو وہ اپنا قرض کیسے وصول کرے؟ علامہ حصکفی لکھتے ہیں:

جواز کا حیلہ یہ کہ وہ اپنے مقروض جو صاحب نصاب نہ ہواپنی زکوٰۃ دے اور اس کو مالک بنا دے،پھر اس مقروض سے اپنا قرض وصول کرے اور اگر نہ دے اس سے چھین لے کیوں کہ وہ اپنا بعینہ قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا،اور اگر زکوٰۃ کی رقم سے کسی غریب آدمی کا کفن بناناہوتو کسی غریب کو کفن کی رقم زکوٰۃ میں  دے دے پھر وہ شخص اسے کفن پہنادے۔اس میں دونو ں کو ثواب ملے گا،مسجد کی تعمیر میں بھی زکوٰۃ کی رقم اسی طرح لگائی جا سکتی ہے۔  (درمختار ج۲ ص ۲۱)

نیز علامہ حصکفی لکھتے ہیں:  زکوٰۃ کے رقم کو مسجد،سراے اور سبیل وغیرہ پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے اور اس کا حیلہ یہ کہ یہ رقم کسی غریب آدمی کو دے دے،پھر اس کو کہے کہ وہ رقم ان کاموں میں اپنی طرف سے خرچ کرے۔   (درمختار ج ۲ ص ۳۶)

علامہ شامی لکھتے ہیں: حافظ سیوطی نے جامع صغیر میں یہ حدیث بیان کی ہے کہ اگر صدقہ سو ہاتھو ں سے منتقل ہوتا ہوا کسی شخص کو ملے تو ہر شخص کو اتنا ثواب ہوگا جتنا پہلے شخص کو ملے گا اور کسی کیت ثواب میں کمی نہیں ہوگی۔    (فیض القدیر شرح جامع صغیر ج ۵ ص ۲۳۳)

علامہ مناوی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو خطیب بغدادی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے،اس کی سند میں بشیر بلخی ضعیف راوی ہے۔


حیلہ اسقاط کی شرعی حیثیت 

نماز،روزہ،دیگر کفارات اور جنایات کو میت سے ساقط کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان تمام حقوق مالیہ کا ایک اندازہ کرلیا جائے اور اس کے تہائی مال سے اس رقم کو صدقہ کردیا جائے بہ شرطیکہ اس نے وصیت کی ہو۔ اگر اس نے وصیت نہیں کی اور اس کے ورثہ میں سے کوئی اپنی طرف سے بطور احسان،میت کی طرف سے صدقہ کر دے تو جائز ہے۔اور اگر اتنی رقم نہ ہوسکی ہو،مثلا کل رقم ایک لاکھ ہے اور واثین کے پاس فقط ایک ہزار روپے ہیں تو سو آدمی بیٹھ جائیں اور وہ ایک شخص کو میت کا ذمہ ساقط کرنے کی نیت سے ایک ہزار روپے دے،پھر وہ دوسرے شخص کو ہزار روپے اسی نیت دے حتیٰ کہ ننانوے واں شخص سویں شخص کو اسی نیت سے ہزار روپے دے دے یا وارث اور فقیر ایک دوسرے کو سو بار دیں تو میت کی طرف سے ایک لاکھ روپے کے حقوق ساقط ہوجائیں گے اور ان سو آدمیوں میں سے ہر شخص کو ایک ایک ہزار روپے صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا   (مراقی الفلاح ص ۲۶۳۔۱۶۳)

 

ان تما م دلائل سے بات کلی طور پر واضح ہوگئی کہ حیلہ بالکل درست اور صحیح ہے۔۔۔۔

واللہ اعلم بالصواب۔

 ازقم۔۔۔۔محمد چاند علی قمرجامعی 




Post a Comment

2 Comments

Shakil Ak Tv said…
سبحان اللہ
اللہ تعالی آپ کے علم و عمل مزید برکت عطا فرمائیں
Unknown said…
Subhannahllh mashaallah