کالا خضاب کا شرعی حکم، کالا خضاب لگانے والے امام کی اقتداء درست ہے یا نہیں؟

کالا خضاب کا شرعی حکم، کالا خضاب لگانے والے امام کی اقتداء درست ہے یا نہیں؟ 


الجواب بعون الملک الوھاب! 


اجمالی جواب: کالا خضاب کا استعمال عام حالات میں نا جائز ہے اور لگانے والے امام کی اقتدا مکروہ ہے ایسے امام کی اقتداء میں پڑھی گئی نمازیں واجب الاعادہ ہیں. 


  تفصیلی جواب:   حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

" فتح مکہ کے دن حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا گیا،ان کے سر اور داڑھی کے بال   ثغامہ کی طرح سفید تھے ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

غيروا ھذا بشئ واجتنبوا السواد"  

 "(صحيح مسلم،کتاب  اللباس ،باب استحباب خضاب الشیب ، بصفرۃو حمرۃ و تحریمہ با السواد ، ۔۔حدیث نمبر 5395،

  یعنی ان کو کسی چیز سے تبدیل کرو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرو،

عن ابن عباس ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال یکون فی آخر الزمان قوم یسودون اشعارھم لا ینظر اللہ الیھم ،

{مجمع الزاوئد،ج 5، ص 161،دارالکتب بیروت،}

 یعنی آخر زمانے میں ایک قوم  ہو گی جو اپنے بالوں کو سیاہ رنگ کے ساتھ رنگے گی ، اللہ تعالی ان کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا ،اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند عمدہ ہے،

عن عبداللہ بن عمرقال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الصفرۃ خضاب المؤمن ،والحمرة خضاب المسلم ،و السواد خضاب الكافر

{مجمع الزاوئد،ج 5، 163،دارالکتب بیروت،}

 یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ زرد رنگ مومن کا خضاب ہے،سرخ رنگ مسلم کا خضاب ہے ، اور سیاہ رنگ کا فر کا خضاب ہے۔"

 مذکورہ احادیث سے واضح ہے کہ سیاہ رنگ کا خضاب ناجائز ہے،

علامہ شامی لکھتے:

 غیر حالت جنگ میں سیاہ خضاب لگانا مکروہ ہے اور جنگ میں سیاہ خضاب لگانا بالاتفاق مستحسن ہے تاکہ دشمن پر رعب  طاری ہو اور اپنے آپ کو ازواج کے لیے مزین کرنا مکروہ ہے ،عام  مشائخ کا یہی مختار ہے

 { رد المحتار ، جلد 5 ،372،عثمانیہ استنبول}

امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمدرضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے اپنے رسالہ "حک العیب فی حرمۃ تسوید الشیب" میں ایک سوال کے جواب میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ : 

  صحیح مذہب میں سیاہ خضاب حالت جہاد کے سوا مطلقا حرام ہے جس کی حرمت پر احادیث صحیحہ و معتبرہ ناطق ہے ۔{"حک العیب فی حرمۃ تسوید الشیب، ص 2،  رضا اکیڈمی ممبئی }

 لفظ مکروہ کی تشریح کرتے ہوئے  امام اہلسنت علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے ہیں کہ : 

 علماء جب کراہت مطلق بولتے   ہیں اس سے کراہت تحریمی مراد لیتے  ہیں جس کا مرتکب گنہگار و مستحق عذاب ہے،

{حک العیب فی حرمۃ تسوید الشیب، ص 6،  رضا اکیڈمی ممبئی }

 مذکورہ تمام احادیث واقوال سے ثابت ہوا کہ کالا خضاب حرام ہے اور اس کا مرتکب گنہگار ہے،

لہذا ایسا امام جو حرام کا مرتکب ہے وہ فاسق ہے اور فاسق کی اقتداء جائز نہیں،پڑھی جائے تو شرعا اس کا اعادہ مطلوب ہے، اور اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان ردالمحتار کے حوالے سے لکھتے ہیں: 

 ہر وہ نماز جو کراہت کے ساتھ ادا کی جائے  تو مکروہ تحریمی کی صورت میں اس کا لوٹانا واجب ہے {فتاوی رضویہ یہ جلد 6 ص 389 }

ہاں اگر امام نے  اپنے کئے سے توبہ کر لیا تو اس کے پیچھے نماز جائز ہے اس لئے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

يقينا اللہ تعالى سارے گناہ معاف كر ديتا ہے ،سورہ الزمر ( 53 )


واللہ تعالی اعلم بالصواب۔

 

Post a Comment

0 Comments