سوال_______؟؟؟
ہماری برادری کی اصلاح کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے.
جو برادری کی اصلاح کا کام کرتی ہیں.
ہماری برادری میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ نکاح کے بعد کچھ ہی دنوں میں میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں.
کبھی لڑکی کو لڑکا پسند نہیں تو کہی لڑکے کو لڑکی پسند نہیں اور پھر معاملہ طلاق پر آجاتا ہے_
کمیٹی یہ چاہتی ہے کہ برادری میں طلاق کا معاملہ آجائے تو ان پر روپیوں کا جرمانہ لگایا جائے کہ طلاق دوگے تو اتنی رقم کمیٹی کو دینی ہوگی اس سے ہو سکتا ہے برادری میں جرمانہ کے ڈر سے طلاق سے بچ جائیں.
کیا ایسا کرنا درست ہے ؟؟؟
اور اگر درست ہے تو جرمانہ کی رقم کا کیا کیا جائے.
طلاق کے معاملہ میں اگر غلطی لڑکی کی ہے تو لڑکی جرمانہ دیگی اور لڑکے کی غلطی ہے تو لڑکا جرمانہ دیگا.
اور یہ جرمانہ عدت کی رقم کے سوا ہوگا_
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الجواب بعونہ تعالیٰ :کسی بھی جرم کی سزا میں ( جرمانہ ) وصول کرنا ناجائز و گناہ ہے کیونکہ مالی جرمانہ منسوخ ہوگیا اور منسوخ پر عمل حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :" وَلاَ تَأْكُلُوْا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ " ترجمہ: آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ۔( سورہ بقرہ آیت 188)ردالمحتار میں ہے: افاد فی البزازیۃ ان معنی التعزيز باخذ المال علی القول بہ امساک شئ من مالہ منہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ الحاکم الیہ لا ان یاخذہ الحاکم لنفسہ او بیت المال کما یتوھمه الظلمة اذا لایجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی وفی شرح الآثار (اللامام الطحاوی رحمہ ﷲ تعالي) التعزیر بالمال کان فی ابتداء الاسلام ثم نسخ " ترجمہ : فتاوٰی بزازیہ میں یہ افادہ بیان کیا گیا ہے کہ : تعزیر بالمال کا مفہوم یہ ہے کہ مجرم کے مال میں سے ایک خاص مدت تک کے لئے مال، حاکم اپنے پاس ہی رکھ لے تاکہ وہ اس طرح کے جرائم سے باز آجائے. پھر سدھر جائے تو حاکم وہ مال اس کولوٹا دے. یہ مطلب نہیں کہ حاکم اپنی ذات یا بیت المال کے لئے جرمانہ کے مال وصول کرے جیسا کہ بعض ظالموں کا گمان ہے. کیونکہ کسی بھی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ بغیر کسی سبب شرعی کے کسی کا مال حاصل کرے، اور شرح آثار امام طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ میں ہے کہ مالی تعزیر شروع اسلام میں تھی پھر منسوخ ہوگئی۔(ج 6 کتاب الحدود، باب التعزیر، صفحہ 77 )۔اسی میں در مختار مع رد المحتار پر ہے : التعزير ليس فيه تقدير بل هو مفوض إلي رأي القاضي، أنه ليس في التعزير شي مقدر بل مفوض إلي رأي الإمام" ( ج 6 باب التعزیر، صفحہ 106)۔
لہذا ان سے جرمانہ لینا ناجائز و گناہ ہے ہاں تنبیہ کے طور پر کمیٹی والے اصلاح کے لئے جرمانہ لیکر اپنے پاس رکھ لیں جب وہاں کے لوگ اس کام سے باز آجائیں،تو کمیٹی والے اسے وہ جرمانہ لوٹا دیں۔ اس مذکورہ طریقہ پر کرنا جائز ورنہ جائز نہیں۔یا کیمٹی والے دین مہر زیادہ سے زیادہ رکھوائے اس سے بھی طلاق دینے میں لوگ خوف کریں گے اور طلاق کا معاملہ کم پیش آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ عزوجل
۔۔وﷲ سبحٰنہ وتعالیٰ اعلم.
2 Comments
اللہ آپ کی عمر میں بے پناہ برکت عطا فرمائیں