دیوالی کے دن غیر مسلموں کے دئیے ہوئے تحفے لینا کیسا ہے؟

دیوالی کے دن غیر مسلموں کے دئیے ہوئے تحفے لینا کیسا ہے؟
دیوالی کے دن غیر مسلموں کے دئیے ہوئے تحفے لینا کیسا ہے؟


کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلےکے بارے میں کہ ہندوستان میں فیکٹریوں کے مالک اپنے ملازمین کو دیوالی کے دن پیسے اور مٹھائی وغیرہ کی شکل میں کچھ تحفے دیتے ہیں ، ان کی طرف سے یہ تحفے قبول کرنا اور ان کی دی ہوئی مٹھائی کھانا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں. 

                   

                     بسم الله الرحمٰن الرحيم 

نحمده و نصلي ونسلم على رسوله الكريم ، وعلى آله وأصحابه أجمعين. أما بعد! 

الجواب: دیوالی کے دن کمپنیوں اور فیکٹریوں کے مالکوں کی جانب سے مسلم ملازمین کا تحفے قبول کرنا اور تحفے میں دی ہوئی مٹھائیاں کھانا جائز ہے ، البتہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ دیوالی منانے اور اس میں شرکت کرنے کا ارادہ نہ رکھیں اور نہ ہی اس دن کی تعظیم کا قصد کریں. 


اللہ تعالی فرماتا ہے : " لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين ولم يخرجوكم من دياركم ان تبروهم وتقسطوا اليهم ان الله يحب المقسطين". ترجمہ: اللہ تعالی تمہیں ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے نہ قتال کیا اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے اچھا سلوک کرو اور ان کے ساتھ انصاف سے کام لو یقیناً اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے. (سورۂ ممتحنہ ، آیت: 8)

اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں ان غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کا برتاؤ کرنے کو مباح قرار دیا ہے جو مسلمانوں سے قتال وغیرہ نہ کریں لہذا اگر مسلمان حسن سلوک کی غرض سے دیوالی کے دن غیر مسلموں کے تحفے قبول کرلیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے. 


مصنف ابن ابی شیبہ کے درج ذیل آثار میں بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ غیر مسلموں سے ان کے تہوار کے دن بھی ہدایا قبول کرنا جائز و درست ہے.

 روي أن امرأة سألت عائشة قالت:إن لنا اظآرا من المجوس وإنه يكون لهم العيد فيهدون لنا فقالت: أما ما ذبح لذلك اليوم فلا تأكلوا ولكن كلوا من أشجارهم 

ترجمہ: روایت ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ - رضی اللہ تعالی عنها- سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس مجوسیوں کی کچھ اونٹنیاں ہیں ، ان کی عید آتی ہے تو وہ ہمیں تحفے دیتے ہیں تو حضرت عائشہ نے فرمایا: جو اس دن کے نام پر ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ لیکن ان کے درختوں کے پھل کھا سکتی ہو. ( مصنف ابن أبي شيبة ، اثر نمبر : 24371)

 عن أبي برزة أنه كان له سكان مجوس فكانوا يهدون له في النيروز والمهرجان فكان يقول لأهله: ما كان من فاكهة فكلوه ، وما كان من غير ذلك فردوه

ترجمہ: حضرت ابو برزہ رضی اللہ تعالی عنه سے روایت ہے کہ ان کے پاس کچھ مجوسی رہتے تھے ، وہ نیروز اور مہرجان کے دن انہیں ہدایا پیش کرتے تو وہ اپنے گھر والوں سے کہتے تھے : وہ تحفے میں پھل دیں تو کھاؤاور ان کے علاوہ کوئی اور چیز( ذبیحہ وغیرہ) دیں تو واپس کر دو. ( مصنف ابن أبي شيبة ، اثر نمبر: 24372)

درج بالا آیت و آثار سے واضح ہو گیا کہ اگر کمپنی وغیرہ کے ملازمین دیوالی کے دن اپنے مالکوں کے تحفے دیوالی میں شرکت اور اس کی تعظیم کے قصد سے نہ لیں بلکہ حسن سلوک کی غرض سے لیں تو یہ ان کے لیے جائز ہے. ہاں اگر ان کے ہدایا نہ لینے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو تو اس دن نہ لینا بہتر ہے.

علامہ ابو المعالی محمود بن احمد بخاری حنفی( 616 ھ) فرماتے ہیں: "وما يأتي المجوس في نيروزهم من الأطعمة إلى الأكابر والسادات ومن كان له معهم معرفة وذهاب ومجيئ ، هل يحل أخذ ذلك؟ وهل يضير ذلك لدين الآخذ؟

فقد قيل: إن من أخذ ذلك على وجه الموافقة لفرحهم  يضر ذلك بدينه ، وإن أخذ لا على ذلك الوجه لا بأس به ، والاحتراز عنه أسلم. 

ترجمہ: مجوسی نیروز کے دن جو کھانے اکابر و سادات ، جان پہچان والے اور اپنے یہاں آنے جانے والوں کے پاس لے کر آتے ہیں ، تو کیا انہیں لینا جائز ہے؟ اور کیا ان سے لینے والے کے دین میں کوئی نقصان پہنچےگا ؟ تو اس کا جواب فقہائے کرام نے یہ دیا ہے کہ جو یہ کھانے ان کی خوشی میں شریک ہونے کے ارادے سے لے تو یہ اس کے دین کے نقصان کا سبب ہوں گے اور جو اس ارادے سے نہ لے تو ان کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، پھر بھی بچنا بہتر ہے

( المحيط البرهاني في الفقه النعماني ج 5 ص 259 دار الكتب العلمية) .

هذا ما عندي والله أعلم بالصواب. 

كتبه: محمد نوشاد مصباحی ازہری

صدر مفتی شرعی کونسل ادارۂ شرعیہ دہلی 


 

Post a Comment

0 Comments