جو شخص اسرار طریقت سے ناواقف ہے جب وہ کسی فقیر کو یہ کہتے سنے گا کہ توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ توبہ سے توبہ کرلی جائے، تو اس کلام کے معنی ومفہوم کو انتہائی خطا اور لغو خیال کرے گا، کیوں کہ توبہ سے توبہ تو حقیقت میں گناہ پر اصرار کرنے سے عبارت ہے۔ لیکن جب وہ فقیر اپنا معنی اپنی اصطلاح کے مطابق سمجھا دے گا اور یہ کہے گا کہ اس سے میری مراد گناہ پر اصرار کرنا نہیںہے، بلکہ میری مراد یہ ہے کہ توبہ کرنے والا توبہ کے بعد اپنے نفس کو پاک اور بے عیب نہ کہنے لگےاور رحمت الٰہی کے بجائے اپنی توبہ پر اعتماد نہ کرنے لگے۔ اب وہی شخص جو اب تک اس کلام کا منکر تھا وہ اسے انتہائی ملیح اورلطیف قرار دے گا۔ چوں کہ صوفیہ کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کو ریا اور ادعاسے پاک دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے لیے اخلاص کا دعویٰ ہرگز نہیں کرتے۔ اس تفہیم کے پیش نظر صوفیہ کےاس قول کی بھی تفہیم ہوجاتی ہے:تقویٰ کی حقیقت ترک تقویٰ ہے۔ حضرت عمر بن الفارض کا یہ شعر بھی اسی قبیل کا ہے:
قلت لزهدي والتنسك والتقى
تخلوا وما بيني وبين الهوى خلوا
(میں نے اپنے زہد وتقشف اور
تقویٰ وطہارت سے کہا میرے اور میرے عشق کے بیچ سے نکل جاؤ اور وہ سب نکل گئے۔)
ابن الفارض کا یہ شعر بھی ایسا ہی ہے:
تمسک باذیال الھویٰ واخلع الحیا
وخل سبیل الناسکین وان جلوا
(شرم وحیا چھوڑ دو اور عشق
کا دامن تھام لواور بڑے بڑے زاہدین کی روش چھوڑ دو۔)
چوں کہ جو شخص بھی صوفیہ کی اصطلاحات سےبے
خبر ہوگا وہ یہ کہتے ہوئےاس کلام کا انکار کر بیٹھے گاکہ ترک زہد ، ترک تقویٰ اور ترک
عبادت امر مذموم ہے، بلکہ اس سے تو بندے کا سارا دین ہی تباہ ہوکر رہ جائےگا۔ پھر ایسے
قائل کا عقیدہ بھلا کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟ اور جو شخص صوفیہ کی اصطلاحات سے واقف
ہوگا، وہ جان لے گا کہ یہاں ترک تقویٰ سے حضرت ابن الفارض کی مراد اللہ کے بجائے اعمال
پر بھروسہ نہ کرنا ہے۔ چوں کہ یہ بات ثابت ہے کہ اپنے اسلاف کی طرح حضرت ابن الفارض
خود بھی زہدوتقویٰ اور عبادت وطہارت کے طریقےپر تھے۔ یہی حال حضرت ابن العربی اور ان
جیسےدیگر مشائخ کا ہے۔ کسی صوفی کے بارے میں ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ اس نے
کبھی نماز، روزہ یا حج وزکات سے منع کیا ہویا شریعت کی کسی بات کو رد کیا ہو۔ بھلا
کوئی ولی اس راہ کو کیوں کر چھوڑ سکتا ہے جو بارگاہ قدس تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، جب
کہ وہ خود دوسروں کووصال مولیٰ کی کثرت سے تلقین کرتا ہے۔ہاں! اعتراض کی گنجائش فقط
ان کے احوال وکوائف اور افکار وافہام پر ممکن ہے۔ البتہ یہ امور کسی حدیث صریح کے خلاف
نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کا معاملہ انتہائی آسان ہے۔ ان امور میں جو چاہے ان کی تصدیق کرے
اور جس طرح فقہا کی تقلید کرتا ہے ان کی بھی تقلید کرے اور جو چاہے خاموش رہے، البتہ
انکار نہ کرے، کیوں کہ وہ اس راہ کے مجتہد ہیں اور کسی مجتہد پر دوسرے مجتہد کے انکار
سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
(الطبقات الکبریٰ للشعرانی، مقدمہ)
0 Comments