مسلکِ اعلی حضرت کیاہے؟

مسلک اعلی حضرت کی صحیح فہم.... 

________________

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ایک عزیز سے کسی خالص فرعی مسئلہ میں بات چل نکلی اس بھلے آدمی نے میری بات پر ردّ فرمایا اور کہا کہ یہ مسلکِ اعلیحضرت کے خلاف ہے میں نے پہلے پہل اسے سمجھایا کہ میرے بھائی "مسلکِ اعلیحضرت" ایک خاص اصطلاح ہے جو دربارۂ عقائد جاری اور اسی حد تک محدود ہے،

  فرعیات  سے اس کا وہ تعلّق نہیں ہے جو آپ جتانا چاہ رہے ہیں

 لیکن وہ نہیں مانا بالآخر میں نے اعلیحضرت کے ایک رسالۂ مبارکہ مفیدہ سے اپنی بات کی تائید میں  دلیل پیش کی اس پر حضرت موصوف فرمانے لگے کہ اس عبارت کا وہ مطلب نہیں ہے جو آپ نے سمجھا ہے بلکہ کچھ اور مطلب ہے(اور پھر انہوں نے اپنا فہم پیش کیا)

اس پر میں نے کہا کہ جناب اعلیحضرت کا تو وہی مسلک ہے جو آپ کی کتب میں صراحۃً مذکور ہے 

آپ اور میں اس عبارت کے فہم اور اس کی تشریح میں مختلف ہوگئے ہیں لہذا اس عبارت سے جو آپ نے سمجھا وہ آپ کا مسلک ہے، اعلیحضرت کا نہیں اور جو میں نے سمجھا وہ میرا مسلک ہے، اعلیحضرت کا نہیں 

اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنے فہم کی بنیاد پر دوسرے کی رائے سے اختلاف کیا ہے اسے اعلیحضرت سے اختلاف کا نام دینا سراسر ناانصافی ہے

اسی طرح یہ بات بھی ذہن نشین فرمالیجیے کہ ایسے میں جو کوئی تیسرا فرد ہم دونوں کی رائے سے اختلاف کرے گا اسے بھی ہمارے فہم سے اختلاف شمار کیا جائے گا نہ کہ اعلیحضرت سے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اس کی رائے بھی وہیں سے مأخوذ ہو

جیسے (بلا تشبیہ و تمثیل) محدثین میں سے کئی لوگ ایک ایک حدیث کے تحت کئی متضاد آراء بیان کر دیتے ہیں اور ہر رائے پر کوئی مذہب ہوتا ہے اور اسے ہم محدثین کے باہمی فہم کے اختلاف کا نام دیتے ہیں،

کوئی بھی شخص یہ نہیں کہتا کہ فلاں محدث نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کرلیا ہے یا معاذاللہ آپ علیہ السلام سے بغاوت پر اتر آیا ہے،

 اللہ تعالی ہمیں اپنی خاص پناہ میں رکھے

اور بالفرض ایک لمحے کے لیے مان لیجیے کہ کسی ذی علم نے خاص فرعی مسئلہ میں خاص دلیل کی وجہ سے حضرت فاضل بریلوی سے اختلاف کر بھی لیا تو کیا قیامت آگئی بلکہ بہت ممکن ہے کہ  مسئلہ کی بنا اگر دلیل پر ہے تو وہی قول جسے ہم آپ کے خلاف بتا رہے ہیں وہ آپ کا قول ضروری ہو 

اور سب جانے دیجیے پھر بھی اس قدر سے آنکھیں نہیں پھیری جاسکتیں کہ وہ اختلاف جو دلیل سے ناشی ہے وہ جب حضرت امامنا الاعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ (اور میں ان کی جوتیوں پر قربان ) سے جائز ہے تو ان کے غلاموں سے کیونکر منع ہوسکتا ہے

فلہذا اے میرے بھائی پہلی بات یہ خوب یاد رکھیں کہ مسلکِ اعلیحضرت عقائد کے باب میں مسلک اہل سنت کا دوسرا نام ہے اور یہاں کسی بھی فرد کے ذاتی فہم کا سرے سے کوئی اعتبار ہی نہیں  بلکہ حق کے ہر متلاشی کو جمہور اہل سنت سواد اعظم کی تشریحات بچشم و سر قبول کرنی پڑیں گی 

حتی کہ اس باب میں خود اعلیحضرت کے شخصی فہم کی بھی کوئی جگہ نہیں بلکہ دیگر علما کی طرح حضرت فاضل بریلوی بھی جمہور علماے اہل سنّت کی تشریحات کو ماننے کے پابند ہیں

اور کسے باشد،  ہر کسی کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس مقام پر کسی کو بھی کسی صورت بھی  کسی قیمت  پر بھی کسی طرح کی چوں و چراں کی اجازت نہیں ہے  

دوسری بات یہ لحاظ میں رہے کہ فرعی مسائل اوّلًا "مسلکِ اعلیحضرت" کے اصطلاحی دائرے میں آتے ہی نہیں 

 ثانیًا اگر آپ بضد ہو کر فرعیات کو اس خاص اصطلاح کے دائرے میں لے ہی آئیں تو خوب جان لیں کہ فرعیات کے باب میں خود اعلیحضرت کا مسلک بھی توسّع ہی ہے یعنی خود آپ کے نزدیک بھی اس باب میں خلاف کی گنجائش ہے اور دلیل سے اختلاف کرنے والے پر کچھ الزام نہیں آئے گا۔

وأنا الفقير الي الله الوھّاب

 وھُو تعالي اعلم بالصّدق والصوّاب

ابوالحسنات السندی الحنفی

ذیشان مصباحی کے وال سے

Post a Comment

0 Comments