بدعت کا بیان |
بدعت کا بیان
بدعت کی حقیقت کیا ہے؟ اس پر پہلے گفتگو کرلی جائے تا کہ اس کی شرعی حیثیت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔بدعت کا لغوی معنی لفظ بدعة کا لغوی معنی ہے نئی چیز، جس کی مثال پہلے سے موجود نہ ہو۔ البدعةجمعها بدع، ما احدث على غير مثال سابق.(المنجدفي اللغة والأعلام ).
بدعت کا اصطلاحی معنی
اصطلاح شرع میں بدعت ہر اس نے عقیدہ،عمل، قول اور طریق کو کہتے ہیں جوامرشارع کےتحت نہ ہو. یعنی اصول شریعت(قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس مجتہدین) کے خلاف ہو۔واضح رہے کہ غیرمقلدین جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں ان کے بعض عالموں نے بھی قرآن و حدیث کے بعد اجماع اور قیاس مجتهدین کودلیل شرعی تسلیم کیا ہے ۔ جیسا کہ مولانا ثناء اللہ امرتسری کے فتاویٰ کے دیباچے میں ہے "مسلک اہل حدیث کا بنیادی اصول صرف کتاب اللہ وسنت رسول اللہ کی پیروی ہے. رائے قیاس واجتهاد واجماع سب کتاب وسنت کے ماتحت ہیں“۔ (دیباچہ فتاویٰ ثنائیہ ص ٢١ مکتبہ ترجان دہلی ۲۰۰۴)
قاضی شوکانی نے لکھا: إن المحرم إنما هو اللحم فقط
وقد أجمعت الأمة على تحريم شحمه . (فتح القدير ج ا ص ٢٦٢ دارالفکر بیروت ۲۰۰۵ء)
ترجمہ: قرآنی آیت سے صرف خنزير کے گوشت کا حرام
ہونا ثابت ہے لیکن اجماع امت کے مطابق اس کی چربی بھی حرام ہے
بدعت کی شرعی حیثیت
اپنے لغوی معنی ومفہوم کے لحاظ سے ہر بدعت شریعت اسلامیہ میں ناجائز و گمراہی نہیں بلکہ بنیادی طور پر اس کی دو قسمیں ہیں. (1)ایک وہ بدعت(نئی چیز) جوامر شارع (واضح رہے کہ امر شارع کا مفہوم کتاب وسنت اور جو کچھ دونوں سے مستنبط ہے، سب کو شامل ہے) کے خلاف نہ ہو. یہ بدعت ناجائز نہیں. (2) دوسری بدعت وہ ہے جو امرشارع کے خلاف ہو. یہ بدعت ناجائز ہے. بدعت (نئی چیز) کی قسمِ دوم شریعت میں مردود و مذموم ہے اور قسم اول مذموم نہیں۔
بدعت کی تقسیم اور كل بدعة ضلالة کامعنی
ترجمہ: اپنے آپ کو ہر نئی چیز سے بچاؤ، کیوں کہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے.
اگر بعض بدعت کو جائز کہا جائے تو لازم آئے گا کہ قول رسول "ہر بدعت گمراہی ہے" غلط ہوجائے کیوں کہ کوئی جائز چیز ضلالت نہیں ۔ قول رسول صل اللہ علیہ والہ غلط نہیں ہوسکتا،اس لئے ماننا ہوگا کہ بدعت کی تقسیم جائز و ناجائز کی طرف کرنا درست نہیں۔اس شبہ کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ اگر قول رسول ہر بدعت گمراہی ہے کا مطلب یہ لیا جائےکہ ہر نئی چیز گمراہی ہے تو دنیا کے سارے مسلمانوں کا گمراہی میں مبتلا ہونا لازم آئے گا۔ بتایا جائے کون سا مسلمان کسی نئی چیز کے ارتکاب سے بچا ہوا ہے، جو زمانہ نبوی میں موجود نہیں تھی ؟ اگر کوئی کہے کہ نئی چیز سے مراد ہے دین میں نئی چیز ایجاد کرنا، تو اس سے پوچھا جائے کہ قرآن کا اعراب،سورتوں اور آیتوں کے نمبرات، احادیث کا جمع کرنا علم تفسیر, اصول تفسیر، اصول حدیث وغیرہ علوم وفنون دینیہ اور ان کی تعلیم تعلم کے لئے مدارس قائم کرنا، نصاب تعلیم وغیرہ یہ سب نئی چیزیں دینی ہیںیا دنیاوی؟ یہ سب تو دین سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ سب امور دور رسالت اور دور صحابہ میں موجودنہیں تھے، بلکہ یہ سب بعد کی ایجاد ہیں، تو انہیں ضلالت و گمراہی ہونا چاہئے؟ کیونکہ ہرنئی چیز گمراہی ہے۔ ظاہر ہے یہ سب دینی امور ہیں اور کار خیر ہیں، ان میں سے بعض تو صرف جائز ہی نہیں بلکہ واجب کفایہ کے درجے میں ہیں ۔ لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ قول رسول ہری چیز گمراہی ہے‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہرنئی چیز جوقرآن وحدیث اور دلائل شرعیہ کے خلاف ہو، وہ گمراہی ہے۔حدیث پاک :گل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة ( ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے) کا جو مطلب میں نے بیان کیا اس کی تائید صحیح بخاری ومسلم کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا:
حدیث: من أحدث في أمرنا هذا ماليس منه فهو رد(مشکوۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ صحیح بخاری کتاب الصلح حدیث نمبر٣٧١) ترجمہ: جس نے ہمارے اس دین میں ایسی نئی چیز ایجاد کی جو ہمارے دین میں سے نہیں تو وہ نئی چیز نا مقبول ہے۔
اس حدیث میں لفظ احدث اور مالیس منه قابل غور ہیں ۔ من أحدث في أمرنا کا معنی جس نے ہمارے دین میں نئی چیز ایجاد کی ۔اس کے بعد ماليس منه ذکر ہوا۔ یعنی جس نے ایسی نئی چیز ایجاد کی جو ہمارے دین میں سے نہیں، بلکہ دین سے باہر ہے تو وہ مردود و نامقبول ہے۔ اگر دین میں ہر نئی چیز گمراہی ہوتی تو مالیس منه کہنے کی ضرورت نہ تھی ۔ بلکہصرف یہ کہا جا تا کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی وہ نا مقبول ہے۔ یہ نہ کہ کر یہ کہا گیا کہ جس نے ہمارے دین میں ایسی نئی چیز ایجاد کی جو دین سے نہ ہو بلکہ دین کے خلاف ہو تو وہ نا مقبول ہے۔ پتہ چلا کہ ہر نئی چیز لغوی اعتبار سے بدعت تو ہے لیکن نا مقبول اس وقت یے ہے جب کہ دین میں سے نہ ہو بلکہ دین کے معارض ومخالف ہو اور جو نئی چیز دین کے معارض ومخالف نہ ہو وہ مردود نہیں بلکہ اس میں دینی یا دنیوی منفعت ملحوظ ہوتو وہ بہتر ہے ۔ جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے (حدیث آگے آرہی ہے۔) اس لحاظ سے ہرلغوی بدعت (نئی چیز) کی شرعا دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ (۱) بدعت حسنہ (اچھی نئی چیز)(۲) بدعت سیئہ (بری نئی چیز )
بدعت حسنہ و
سیئہ کا ثبوت احادیث کریمہ سے
(1) حدیث : من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بغيره من غير أن ينقص من أجورهم شيء ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرهاووزر من عمل بها من بعده من غيران ينقص من أوزارهم شئ.(صحیح مسلم کتاب الزكوة / حدیث: ۲۳۵۱، کتاب العلم،حدیث ۲۸۰۰).
ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی اچھا (نیا) طریقہ جاری کیا اس کو اس کا ثواب ملے گا اوراس کا بھی ثواب ملے گا جو اس کے بعد اس پرعمل کرے گا، ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا اس کا گناہ اور اس کے بعد اس پرعمل کرنے والوں کا گنا بھی اس پر ہو گا۔ ان کے گناہوں میں بھی نہیں کمی نہیں کی جائے گی۔
(۲) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:حديث : من سن سنة ضلالٍ فاتُّبِعَ عليها كان عليه مثل أوزارهم من غير أن ينقص من أوزارهم شيء ومن سن سنة هُدیً فاتبع عليها كان له مثل أجورهم من غير أنينقص من أجورهم شيء . (مسند احمد حديث نمبر ۱۰۷۸)
ترجمہ: جس شخص نے گمراہی کا کوئی طریقہ جاری کیا اور اس کی پیروی کی گئی تو تمام پیروی کرنے والوں کا گناہ اس شخص پر ہو گا اور کسی کے گناہ سے کچھ کمی نہیں ہوگی اور جس شخص نے ہدایت کا کوئی طریقہ جاری کیا اور اس کی پیروی کی گی تو تمام پیروی کرنے والوں کی نیکیاں اس شخص کو ملیں گی اور ان کی نیکیوں میں سے کچھ بھی کم نہیں کیا جائے گا۔
(۳) امام ابوعبدالله محمد بن یزید قزوین ابن ماجہ متوفی :۲٧۵ھ نے سنن ابن ماجہ میں ایک عنوان قائم فرمایا ہے من سن سنة حسنة أو سيئة.“ اس کے تحت حدیث مذکورہ کو حضرت جریرابوہریرہ، ابوجحیفہ رضی اللہ عنہم کی سند سے ذکر کیا ہے۔ (ابن ماجہ حدیث:۲۰۳، ۲۰۴، ۲۰۷). ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ بدعت (نئی چیز) کی دوقسمیں ہیں بدعت سیئہ (بری نئی چیز)اور بدعت حسنہ (اچھی نئی چیز)۔
حدیث مذکور میں جولفظ سنة آیا ہے اس سے مرادلغوی سنہ(طریقہ) ہے۔ یہاں سنہ کا اصطلاحی معنی مراد نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اصطلاحا ہرسنت، حسنہ(اچھی) ہے۔ کوئی سنت ، سیئہ (بری)نہیں ۔ حدیث مذکور کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ جوشخص اسلام میں کوئی اچھا نیا طریقہ(بدعت حسنہ ) ایجاد کرے گا، اسے اس کا ثواب ملے گا اور اس کے بعد اس پرعمل کرنے والوں کا ثواب بھی ملے گا اور جو شخص اسلام میں کوئی نیا طریقہ (بدعت سیئہ ) ایجاد کرے گا تو اس کا گناهاس پر ہوگا اور اس کے بعد اس پرعمل کرنے والوں کا بھی گناہ اس کے سر ہوگا۔ پتہ چلا کہ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرنا حدیث سے ثابت ہے ۔ شریعت اسلامیہ میں جہاں بھی سنت کے بالمقابل بدعت کا استعمال ہوتا ہے وہاں بدعت سے بدعت سیئہ مراد ہوتی ہے۔ بدعت (نئی چیز) کی تقسیم حسنہ اور سئیہ کی طرف محدثین وفقہاء اور اسلاف امت کے اقوال میں بھی ملتی ہے بلکہ وہ لوگ جو اپنی نادانی میں ہر چیز کو بدعت و گمراہی کہتے ہیں اور معمولات اہل سنت و جماعت مثلا ، قیام، میلاد، تیجہ، چالیسواں، گیارہویں شریف و بارہویں شریف کے فاتحہ، زیارت قبور اولیاء اور مجالس وعظ وغیرہ کو بدعت و گمراہی کہتے ہیں اور اہل سنت وجماعت کو بدعتی و قبرپرست کہتے ہیں خود انہیں کے اکابر علماء نے بھی بعض بدعت کو حسنہ قرار دیا ہے.
0 Comments