سوال : زید کو دست آرہا تھا زہد نے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے کپڑے میں نجاست کو دیکھا- زید کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ نجاست کپڑے میں کب لگی ہے - دریافت طلب امریہ ہے کہ زید کی عشاء اور اس سے پہلے پڑھی گئی نماز درست ہوئی کی نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں.
حامدا و مصلیا و متبسملہ
الجواب بعون الملک الوھاب
مذکورہ بالا سوال میں دیکھا جائے گا کہ کپڑے میں جو نجاست لگی ہے اس کی مقدار کیا ہے اگر ایک درہم یا اس سے کم مقدار میں ہے تو یہ مقدار مانع نماز نہیں جیسا کہ در المختار و ردالمحتار، ج١ص۳۱٦ کتاب اطھارۃباب الانجاس میں ہے"وعفا الشارع قدر الدرھم" الخ-
اور شارع نے درہم کی مقدار نجا ست کو عفو قرار دیاہے-
ہاں اگر ایک درہم سے رائد نجاست ہے اور یہ معلوم نہیں کہ کب نجا ست لگی ہے تو اس سے جتنی نما زیں پڑھا ہے ان نمازوں کو لوٹانا ضروری نہیں ہے یعنی وہ ان نمازوں کو دو بارہ نہیں پڑھے گا جیسا کہ الجوھرۃ النیرہ، ج١ص۲۵ اور ج١ص٦۰ مطبعہ دارالکتب العلیة بیرت میں ہے۔ "ان وجد في ثوبه نجاسة مغلظة اكثر من قدر الدرهم ولم يعلم بلإصابة لم يعد شيأً بالاجماع وهو الأصح لأن الثوب بمراء بصره فلا بد ان يطلع عليه هو او غيره فإذالم يطلع عليها علِم انها أصابته للحال،،
اگر اپنے کپڑے میں نجاست غلیظہ مقدار درہم سے زیادہ پایا اور اسے یہ معلوم نہیں کہ نجاست کب لگی ہے تو نماز میں سے کچھ بھی نہیں لوٹاۓگا. .....البحرالرائق شرح کنزالدقائق،ج2 ص۱۳۰ میں ہے "ومن وجد في ثو به نجاسة اكثر من قدر الدرهم ولم يدرى متى اصابته لايعيد شيأ من الصلاة بلاتفاق وهو الصحيح،،
اسی طرح عالمگیری،ج١ ص ٦٠-۵۹ میں ہے '' ان وجد في ثوبه نجاسةً اكثر من قدر الدرهم ولا يدرى متى اصابته لا يعيد شيأ من صلاته بالاجماع وهو الاصح،،اگر کوئی اپنے کپڑے میں مقدار درہم سے زائد نجاست پاۓ اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ نجا ست کب لگی ہے تو وہ نماز میں سے کچھ نہیں لوٹاۓ گا اسی پر اجماع ہے اور یہی اصح قول ہے۔
صورت مسؤلہ میں زید کی نماز عشاء اور اس سے پہلے پڑھی گئی تمام نمازیں درست ہے لھذا اس پر اعادہ واجب نہیں ہے.
والله تعالى أعلم وعلمه اتم و احكم.
از... قلم محمد یونس علی جامعی
0 Comments