کتاب وسنت کی عدالت میں اہل بدعت کون |
آیئے ہم پوری نیک نیتی اور غیر جانب داری کے ساتھ کتاب وسنت کی عدالت میں حاضر ہوجائیں اور وہاں سے فیصلہ حاصل کریں کہ اہل بدعت کون ہیں؟ اہل سنت و جماعت ؟ یا وہابی ، دیو بندی تبلیغی،اہل حدیث وغیرہ۔
بدعت کے بارے میں یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ بدعت ضلالتِ اگر حد کفر کو نہ پہنچے تو اس کا حامل گمراہ ہے۔ پھر گمراہی کے مختلف درجے ہیں ۔ بعض گمراہی بعض سے بڑھ کر ہے۔ بدعت ضلالت اگر کفر کی حد تک پہنچے تو اس کا حال کافر ہے۔ کفر سب سے بڑی گمراہی ہے ۔ ہرکافر گمراہ ہے۔ لیکن ہر گمراہ کافر ہیں ۔آپ کو یہ معلوم ہو چکا کہ ہر نئی چیز گمراہی نہیں، بلکے جو نئی چیز قرآن و حدیث کے خلاف اور اس سے ٹکراتی ہے وہ بدعت ضلالت ہے اور جس نئی چیز کے بارے میں قرآن وحدیث خاموش ہیں وہ بدعت و گمراہی نہیں بلکہ مباح و جائز ہے۔ یہی موقف اہل سنت و جماعت کا ہے۔ اہل سنت و جماعت کے سوا وہابی، اہل حدیث، تبلیغی،دیو بندی جماعت کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر نئی چیز بدعت و گمراہی ہے۔ حدیث یہ کہتی ہے کہ قرآن وحدیث میں جس نئی چیز کو نا جائز نہیں کہا گیا وہ جائز ہے اور وہابی، تبلیغی وغیرہ کہتے ہیں کہ ہر چیز اگرچہ قرآن وحدیث میں اس کو نا جائز نہیں کہا گیا ہے وہ بھی ناجائز و بدعت ہے۔ ذرا انصاف سے بتایئے کہ ہر نئی چیز کو نا جائز و بدعت کہنا قرآن وحدیت کے حکم کےخلاف اپنی رائے سے جائز چیز کو نا جائز ٹهرانا ہے یا نہیں؟ اب قرآن سے پوچھئے کہ جو لوگ اپنی رائے سے جائز چیز کو ناجائز کہتے ہیں وہ کیا ہیں؟ قرآن میں جواب دیتا ہے:
ولا تقولوا لما تصف السنتكم الكذب هذاحلال وهذا حرام لتفتروا على الله الكذب،إن الذين يفترون على الله الكذب لا يفلحون (النحل : ١١٦)
ترجمہ: اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں میں جھوٹ بیان کرتی ہیں، یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ تم اللہ پر جھوٹ باندھو۔ بیشک جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہو گا ۔ (کنزالایمان)
قرآن حکیم کے مطابق جولوگ ہر نئی چیز کو(اگرچہ اس کا ناجائز ہونا قرآن یا حدیث میں مذکور نہ ہو ) ناجائز و حرام و بدعت کہتے ہیں، قرآن و حدیث کے خلاف وہ اپنی رائے سے جائز کو ناجائز کہنے والے ہیں۔ ایسے لوگ ، اللہ پر افتراء کرنے والے ہیں اور اللہ پر افتراء کر نے والے فلاح پانے والے نہیں، یہی لوگ درحقیقت اہل بدعت و گمراہ ہیں، ہدایت یافتہ نہیں ۔ کیوں کہ جو ہدایت پر ہیں وہ فلاح والے ہیں اور جو فلاح والے ہیں وہی ہدایت والے ہیں ۔ قرآن کے مطابق یہ لوگ فلاح والے نہیں، لہذا ہدایت والے بھی نہیں بلکہ بدعت و ضلالت والے ہیں۔
دور صحابہ سے لے کر آج تک ہدایت والوں کا یہی موقف رہا ہے کہ جو نئی چیز دین و شریعت اور کتاب وسنت کی معارض نہیں وہ ناجائز وبدعت نہیں۔ آج اگر کچھ لوگ ہر چیز کو ناجائز و بدعت کہتے ہیں تو وہی درحقیقت دین و شریعت میں قرآن و حدیث کے خلاف ایک نیا ضابطہ ( ہری نئی چیز ناجائز و بدعت ہے) گڑھنے والے ہوئے یانہیں؟ قرآن وحدیث کی عدالت میں خود کو حاضر سمجھ کر بتایئے کہ وہ لوگ بدعتی ہیں جو قرآن وحدیث کے فرمان کو مانتے ہوئے ہر نئی چیز کو ناجائز وبدعت نہیں کہتے ،یاوہ لوگ جو ہر نئی چیز کو بدعت گمراہی کہہ کر اپنے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو گمراہ و بدعتی کہتے ہیں؟ یقینا ایک غیر جانب دار طالب حق عام پڑھا لکھا مسلمان بھی یہی کہے گا کہ قرآن وحدیث کے فرمان کے خلاف اپنی مرضی سے ہر نئی چیز کوبدعت و گمراہی کہنے والے ہی بدعتی وگمراہ ہیں۔
بدعت کے بارے میں یہ بات ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ بدعت ضلالتِ اگر حد کفر کو نہ پہنچے تو اس کا حامل گمراہ ہے۔ پھر گمراہی کے مختلف درجے ہیں ۔ بعض گمراہی بعض سے بڑھ کر ہے۔ بدعت ضلالت اگر کفر کی حد تک پہنچے تو اس کا حال کافر ہے۔ کفر سب سے بڑی گمراہی ہے ۔ ہرکافر گمراہ ہے۔ لیکن ہر گمراہ کافر ہیں ۔
0 Comments