اگر کوئی کہے میں تمہاری تو کیا اللہ کی بات بھی نہیں مانتا ہوں تو کیا حکم لاگو ہوگا.

مسئله : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید اپنی سسرال میں اپنے سسر کے سامنے بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ایک مرد اور دو مستورات بھی موجود تھیں ۔ کچھ تنازع کی بناء پر زید نے اپنے خسر سے یہ کہا کہ جو بڑوں سے مقابلہ کرتا ہے وہ حرامی ہے۔ خسر نے کہا کہ تم بڑوں کی بات نہیں مانے ۔ اس پر زید نے کہا کہ میں حرام ہوں ۔ تب خسر نے کہا کہ واقعی تم حرامی ہو۔ جواب میں زید نے کہا کہ میں تمہاری تو تمہاری اپنے باپ کی بھی نہیں مانتا اور یہ کہا کہ میں خدا کی بھی نہیں مانتا، خسر نے کہا کہ کیا تمہیں  مرنا نہیں ہے؟ زید نے جواب دیا ہاں ہمیں مرنا نہیں ہے؟


 الجواب: زید کا یہ جملہ کہ میں خدا کی بھی نہیں مانتا نہایت خطرناک اور بیہودہ بلکہ کفروارتداد کی بولی ہے۔ چونکہ خداوند قدوس کی مطلق بات کا انکار کرنا کفر صریح ہے ۔ لہذا زید اپنے اس جملہ سے کافر و مرتد ہوگیا۔ زید پر فرض و لازم ہے کہ بلاتاخیر فی الفور معاً اپنے اس کفری جملہ سے توبئہ صحیحہ و صادقہ کر لے اور تجدیدِ ایمان و اسلام بھی کرے اور تجدید نکاح کبھی کرے۔ اور کسی سلسلہ سے بیعت ہوا ہو تو تجدید بیعت بھی کرے۔ والله تعالی اعلم


نوٹ :... آج کل لوگ اس طرح کی بہت ساری گستاخیاں کرتے ہیں، کسی عام آدمی کے بارے کہے تو کسی حد تک قابل برداشت ہے، لیکن ان کمبختوں کی حرماں نصیبی یہ ہے کہ ان کی زبان سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ والہ سلم کی شان کے خلاف باتیں کرنے میں بھی ان کا کلیجہ نہیں کانپتا، گاؤں، دیہات کی عورتیں اس میں کئی قدم آگے ہیں....علاقے کہ علما، مقررین اور ائمہ مساجد سے گزارش ہے کہ سماج سے اس طرح کی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم مصمم کرلیں، ان شاء اللہ کامیابی ملےگی.

Post a Comment

0 Comments