طبقات فقہاء
پہلا طبقه:
دوسرا طبقه:۔
مجتہد فی المذہب کا ہے۔ یہ وہ حضرات ہیں جو اصول میں تو کسی مجتہد مطلق کے مقلد ہوتے ہیں اور فروع میں اپنے امام کے مقرر کردہ اصول کی روشنی میں اولہ اربعہ سے مسائل کے استخراج پر قادر ہوتے ہیں ۔ جیسے قاضی الشرق والغرب امام ابو یوسف (م۱۸۳ھ ) ومحرر مذہب سیدنا امام محمد رحمہما اللہ تعالی (م ۱۸۹ھ) اور امام اعظم کے دیگر تلامذہ۔
تیسرا طبقه:.
مجتهد في المسائل کا ہے۔ یہ وہ حضرات ہیں جو اصول و فروع دونوں میں مجتہد مطلق کے مقلد ہوں اور ان کےوضع کردہ اصول اور مستخرجہ فروع کی روشنی میں غیر منصوص في المذہب مسائل کا استنباط کر سکتے ہوں ۔ جیسے امام ابو بکر خصاف، امام ابوجعفر طحاوی، امام ابو الحسن کرخی، امام شمس الائمہ حلوانی،شمس الائمہ سرخسی (م۹۵۰ھ ) امام فخر الاسلام بزدوی، قاضی خاں (م۵۹۳ھ)۔
چوتھا طبقه:.
اصحاب تخریج کا ہے۔ یہ وہ حضرات ہیں جو اجتہاد و استنباط پر بالکل قدرت نہیں رکھتے ، نہ اصول میں نہ فروع میں ۔ لیکن ائمہ مذہب کے وضع کردہ اصول اور فروع پر مہارت اور فرعی امثال و نظائر پر قیاس کی صلاحیت کی وجہ سے قول مجمل کی تفصیل، قول ذو وجہین کی تعیین، مبہم کے ازالے اورمحتمل کی تعیین پر قادر ہوتے ہیں۔ جیسے امام جصاص ابوبکر رازی۔ صاحب ہدایہ نے ہدایہ میں جورسم افتا کے الفاظ کہے ہیں ۔ کذا فی تخریج الكرخى، و كذا في تخريج الرازی، وہ اسی قبیل سے ہیں ۔
پانچواں طبقه:.
مقلدین میں اصحاب ترجیح کا ہے۔ یہ وہ حضرات ہیں جو اصحاب ترجیح کی بنسبت فقہ میں کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی شان یہ ہے کہ ائمہ مذہب سے منقول قواعد و اصول اور فروع کی روشنی میں بعض روایات کو بعض پر ترجیح دینے کی استطاعت اور ملکہ رکھتے ہیں، جیسے امام ابوالحسن قدوری، امام بر ہان الدین مرغینانی صاحب ہدایہ اور ان جیسے دیگر فقہا ۔ اصحاب ترجیح کے الفاظ یہ ہوتے ہیں :هذا اولی. هذا اصح رواية. هذا ارفق للناس.
چھٹا طبقه:.
اصحاب تمیز کا ہے۔ یہ وہ طبقہ مقلدین ہے جو اقوی ، قوی ، اور ضعیف اقوال میں تمیز کی صلاحیت رکھتا ہے اور روایات ظاہرہ اور روایات نادرہ کے درمیان فرق پر قادر ہوتا ہے۔ یہ طبقہ مردود اقوال اور ضعیف روایات کو نقل نہیں کرتا۔جیسے متاخرین میں اصحاب متونِ معتبرہ مثلا صاحبِ کنز ، صاحب مختار، صاحب وقایہ صاحب جمع وغیرہ۔
ساتواں طبقه:.
مقلدین کا یہ وہ طبقہ ہے جو مذکورہ بالا امور میں سے کسی کی قدرت نہیں رکھتا، ان کا کام ائمہ مذہب کے اقوال نقل کرنا ہے وبس، اس سے اوپر بڑھنا اپنے منصب سے تجاوز کرنا ہے، جیسے موجودہ عہد کے فقہا و مجازی مقتی ۔ (شرح العقود رسم المفتی ص۵)
اس زمانے میں اجتہاد کی صلاحیت ناپید ہے۔ بالعموم مفتی ، مجتہد نہیں ہوتے۔ جن حضرات کو مفتی کہا جا تا ہے وہ مجتہد نہیں ۔ درحقیقت ناقلِ اقوالِ امام ہوتے ہیں ۔ تاہم مفتیِ مقلد بننا بھی آسان نہیں.کتب فقہ میں ہزاروں کلیات،لاکھوں جزئیات موجود ہیں ۔ فقہائے عظام نےاپنی خداداد قوتِ اجتہاد و استنباط سے قرآن و حدیث کی روشنی میں بے شمارمسائل مستخرج فرمادیے ہیں مگر حوادث محدود نہیں، آئے دن سیکڑوں نئے واقعات رونما ہوتے ہیں جن کا حکم معلوم کرنا اور کسی نئے پیش آمدہ مسئلے میں نظائر کے ذریعے یا مفہوم کلی و عموم عبارات وغیرھا حکم شرعی کا اثبات، کلیات سے جزئیات کااستخراج،جزئیات کا کلیات پر انطباق پھر متشابه مسائل میں امتیاز کوئی آسان کام نہیں ۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جسے اللہ عزوجل نےتفقہ فی الدین عطا فرمایا ہو۔ فتوی نویسی کی ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ مفتی کے دل میں خوف خدا ہو ، تقوی و پرہیزگاری اس کا شعار ہو.اگر کوئی مفتی اس وصف سے خالی ہے تو عدمِ تدین کی بنا پر حکم شرع بیان کرنے میں عمدا خطا کا امکان بہرحال موجود ہے۔ اس لیے ایسوں کی طرف مسائل میں رجوع سے احتراز چاہیے۔ اسی نقطے کی طرف عالم مدینہ امام مالک رحمة اللہ علیہ نے اشارہ فرمایا "من تفقه و لم يتصوف فتفسق، جس نے فقہ تو حاصل کیا لیکن تصوف (تقوی)اختیار نہ کیا وہ فاسق ہوا، و من تصوف ولم يتفقه فتزندق‘‘ اور جس نے تصوف اختیار کیا اور مسائل شرعیہ کی سمجھ حاصل نہ کی و ہ را مستقیم سے دور جا پڑا۔
واللہ اعلم بالصواب
0 Comments