![]() |
ضروریات دین کے کتنے درجے ہیں؟کس کے انکار سے کون کافر ہوگا کون نہیں؟ ملاحظہ فرمائیں۔ |
ضروریات دین کےدو درجے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضروریات دین کی دو سطحیں ہیں؛ ضروریات دین عمومی اور ضروریات دین خصوصی۔
۱-ضروریات دین عمومی، دین کی وہ لازمی باتیں ہیں جن کا دین کا بنیادی جز ہونا عوام و خواص دونوں کو معلوم ہوتا ہے ۔ ان کے اندر دو اوصاف ہوتے ہیں:
الف: ان کا ثبوت دلیلِ قطعی الثبوت قطعی الدلالہ(۱) سے ہوتا ہے۔
ب: ان کا علم عوام و خواص سب کو ہوتا ہے۔
۲-ضروریات دین خصوصی دین کی وہ لازمی باتیں ہیں جن کا دین کا بنیادی جز ہونا صرف خواص کو معلوم ہوتا ہے۔ اس کے اندر بھی دو اوصاف ہوتے ہیں:
الف: ان کا ثبوت دلیلِ قطعی الثبوت قطعی الدلالہ سے ہوتا ہے۔
ب: ان کا علم صرف خواص کو ہوتا ہے۔
علما چوں کہ دین کے دقائق سے واقف ہوتے ہیں، اس لیے ان کے مسلم ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ضروریات دین کی دونوں سطحوں کی تصدیق کریں ، جب کہ عوام کو دقائق کا علم نہیں ہوتا، اس لیے مسلم ہونے کے لیے ان کے حق میں صرف اتنا ضروری ہے کہ وہ ضروریات دین کی پہلی سطح کی تصدیق کریں۔
لہٰذا اگر عوام ضروریات دین کی دوسری خصوصی سطح کا انکار بھی کردیں تو ان کی تکفیر نہیں کی جائے گی، جب کہ علما ان میں سے کسی بھی سطح پر ضروریات دین کا انکار کردیں تو ان کی تکفیر کی جائے گی۔
عوام و خواص کے علاوہ یہاں ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو قبول اسلام کے بعد اگر ضروریات دین کی دونوں سطحوں میں سے کسی بھی سطح کی کسی بات کا انکار کردے پھر بھی وہ مسلمان ہی رہے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابھی ابھی اسلام قبول کیا ہو اور اسلامی تعلیمات سے یکسر نابلد ہوں۔امام غزالی رقم طراز ہیں:
اگر کوئی قائل یہ کہے کہ مکے میں جو گھر ہے یہ وہ کعبہ نہیں ہے جس کا حج کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو اس کا یہ قول کفر ہے؛ کیوں کہ رسول انور ﷺ سے تواتر سے اس قول کے برعکس ثابت ہے اور اگر وہ شخص اس بات کا انکار کردے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس گھر کے لیے کعبہ ہونے کی شہادت نہیں دی ہے تو بھی قائل کا انکار اس کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا، بلکہ قطعی طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے انکار میں معاند ومتعصب ہے، الا یہ کہ وہ اسلام سے ابھی نیا نیا وابستہ ہوا ہو اور تواتر کے ساتھ اس کے پاس مکہ میں موجود گھر کے کعبہ ہونے کی خبر نہ پہنچی ہو۔(۲)
ضروریات دین کاایک عوامی مفہوم بھی ہے جو علمی اور حقیقی جہت سے ضروریات دین کے مذکورہ بالامفہوم سے مختلف ہے۔ یہ عوامی ضروریات دین ہیں۔ عوام اپنے اپنے معاشرے میں دین کے ہر معروف فکر و عمل کو ضروریات دین کا حصہ سمجھتے ہیں، خواہ اس کا ثبوت دلیل ظنی، قیاس اور کشف سے ہی کیوں نہ ہوا ہو۔ ایسے امور حقیقی معنوں میں دین کا لازمی جز نہیں ہیں، اس لیے ان کے انکارسے کوئی بھی مسلمان دائرۂ اسلام سے باہر نہیں ہوسکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱-قطعی الثبوت کا مطلب وہ دلیل جس کا ثبوت قطعی ویقینی ہو۔مثلاً کتاب اللہ، سنت متواترہ اور اجماع قطعی، یہ تینوں امور ایسے ہیںکہ اہل حق کے نزدیک ان کا دلیل ہونا واضح ، مسلم اور ثابت شدہ ہے۔ قطعی الدلالہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ دلیل ایسی ہو جو کسی متعین مفہوم پر دلالت کرے۔ امت کا اس بات پر اتفاق ہو کہ اس دلیل کا یہی مطلب ہے۔ وہ دلیل خاص مدعا پر دلالت کرنے میں قطعی یقینی اور ہر شبہے سے بالاتر ہو۔
کشف الاسرار شرح اصول بزدوی میں ہے:
الْأَدِلَّةَ السَّمْعِيَّةَ أَنْوَاعٌ أَرْبَعَةٌ: قَطْعِيُّ الثُّبُوتِ وَالدَّلَالَةِ كَالنُّصُوصِ الْمُتَوَاتِرَةِ، وَقَطْعِيُّ الثُّبُوتِ ظَنِّيُّ الدَّلَالَةِ كَالْآيَاتِ الْمُؤَوَّلَةِ، وَظَنِّيُّ الثُّبُوتِ قَطْعِيُّ الدَّلَالَةِ كَأَخْبَارِ الْآحَادِ الَّتِي مَفْهُومُهَا قَطْعِيٌّ وَظَنِّيُّ الثُّبُوتِ وَالدَّلَالَةِ كَأَخْبَارِ الْآحَادِ الَّتِي مَفْهُومُهَا ظَنِّيٌّ فَبِالْأَوَّلِ يَثْبُتُ الْفَرْضُ وَبِالثَّانِي وَالثَّالِثِ يَثْبُتُ الْوُجُوبُ وَبِالرَّابِعِ يَثْبُتُ السُّنَّةُ وَالِاسْتِحْبَابُ لِيَكُونَ ثُبُوتُ الْحُكْمِ بِقَدْرِ دَلِيلِهِ.(کشف الاسرار، بَابُ مَعْرِفَةِ أَحْكَامِ الْخُصُوصِ، ص: ۱/۸۴)
سمعی دلائل کی چار قسمیں ہیں: ۱-قطعی الثبوت قطعی الدلالۃ، جیسے نصوص متواترہ [جن کا مفہوم متعین ہو]،قطعی الثبوت ظنی الدلالۃ، جیسے آیات مووّلہ،ظنی الثبوت قطعی الدلالۃ، جیسے وہ اخبار آحاد جن کا مفہوم متعین ہو اور ظنی الثبوت ظنی الدلالۃ،جیسے وہ اخبار آحاد جن کا مفہوم ظنی ہو۔ اول سے فرض کا ثبوت ہوگا، ثانی اور ثالث سے وجوب کا ثبوت ہوگا اور رابع سے سنت اور استحباب کا ثبوت ہوگا تاکہ ثبوت حکم ،قوت دلیل کے موافق ہو۔
اسی بات کو عقائد کے باب میں کہیں تو اول سے ضروریات دین کا ثبوت ہوگا، ثانی اور ثالث سے ضروریات اہل سنت کا ثبوت ہوگا اور رابع سے وہ راجح عقائد ثابت ہوں گے جن میں خود بعض اہل سنت کو اختلاف ہے۔
۲-فیصل التفرقۃ،ص:۸۹
ذیشان احمد مصباحی۔۔۔
یہ عبارات ذی شان احمد مصباحی کے فیسبک وال سے منقول ہیں۔مجھے کافی اچھی اور معلوماتی معلوم ہوئی سو میں نے اپنے ویب سائٹ پر پوسٹ کردیا،دلائل کے ساتھ آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے۔
0 Comments