قبرپر شجرہ رکھنا کیسا ہے،بہت سی جگہوں پر لوگ میت کے سینے،سر اور قبر پر شجرہ رکھتے ہیں ،

سوال : قبر میں شجرہ رکھنے کی کیا دلیل ہے؟ بینواتوجروا 

الـجـواب: شجرہ قبر میں رکھنا محبوبان خدا سے تبرک اور ذریعہ تعلق وایصال ہے جو بلاشبہ شرعاً مندوب ومستحسن ہے کہ بزرگان دین ومعظمان شرع متین کے اسمائے گرامی سے توسل سبب فلاح دین و دنیا خصوصا برزخ کے لئے جو آ خرت کی پہلی اور دشوار ترین منزل ہے ، وذریعہ انس اور وسیلۂ سکون وقرار ہے کہ جس چیز کو خدا کے محبوب بندوں سے نسبت حاصل ہوگئی وہ چیز بھی محبوب بن جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے استعمال کئے ہوۓ کپڑوں کو لے کر اپنے کفنوں میں رکھنے کی وصیت فرمائی ۔ جس بارے میں احادیث مبارکہ کے صفحات مملو اور مشحون ہیں، بلکہ خودحضور پر نورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت سید تنا زینب یا ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہماکے کفن میں اپنا تہبند اقدس عطا فرمایا ، اور غسل دینے والی بی بیوں کو حکم دیا کہ اسے ان کے بدن سے متصل رکھیں ۔ یوں ہی حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالی عنہما کوا پنی قمیص اطہر کفن میں دیا وغیرہ وغیرہ ۔

نیز اخبار الاخیار شریف میں حضرت شیخ اجل ابوالحمودسیدنا عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز اپنے والد حضرت شیخ سیف الدین قادری رضی اللہ تعالی عنہ کے احوال میں فرماتے ہیں ۔

"چون وقت رحلت قریب تر آمد فرمودند، بعضے ابیات و کلمات که مناسب معنی عفو و مغفرت باشد در کا غذ بنویسی و باکفن همراه کنی"۔

جب آپ کی رحلت کا وقت قریب آیا ، آپ نے فرمایا’’ کچھ اشعار والفاظ جوعفو و مغفرت کے مفہوم سے مناسبت رکھتے

ہوں ، کاغذ میں لکھ کر کفن کے ساتھ کر دینا ‘‘

یکے ایں رباعی ( ان میں ایک رباعی یہ ہے )۔

دارم دلے غمگیں بیامرز و مپرس،صدواقعه در کمیں بیامرز و مپرس. 

شرمنده شوم اگر به پرسی عملم ،اے اکرم الاکرمیں بیامرز و مپرس. 

غمز دہ دل لا یا ہوں بغیر سوال بخش دے۔معصیت کے سیکڑوں واقعات چھپے ہیں ، بغیر سوال بخش دے اگر تو میرےاعمال کی پرشش کرے تو سواۓ شرمندگی کے اور کیا ہوگا ۔اۓ سب سے بڑے کریم بغیر سوال بخش دے 


قـدمـت عـلـى الـكـريـم بغير زاد، 

من الحسنات والقلب السليم. 

فحـمـل الـزاد اقبح كل شئى، 

اذا كـان القدوم على الكريم. 

نیکیوں اور صحیح و سالم دل کے توشہ کے بغیر بارگاہ کریم میں آ گیا ہوں ، در کریم پر آنے والا تو شہ لے کر آۓ ، اس سے بری ( عجیب) بات اور کیا ہوگی ۔


و فرمودند که در جواب منکر نکیر بنویس ربي الله، و نبی محمد و شیخی عبدالقادر الجيلانی۔ فرماتے تھے’’ منکر نکیر کے جواب میں لکھ دو ۔ میرا رب اللہ تعالی میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور میرے پیر شیخ عبد القادر الجیلانی ہیں‘‘۔


حضرت سید نا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اپنے فتاوی میں ارشادفرماتے ہیں:

'' شجره در قبر نهادن معمول بزرگان است لیکن این را دو طرق است اول این که بر سینه مرده درون کفن یا بالائے کفن گزاردند این طریق را فقهاء منع می کنند و می گویند که از بدن مرده خون و ریم سیلان می کند و موجب سوئے ادب باسمائے بزرگان می شود و طریق دوم این ست که جانب سر مرده اندرون قبر طاقچه بگزارند و در آن کاغذ شجره را نهند''۔

 قبر میں شجرہ رکھنا بزرگوں کا معمول ہے، مگر اس کے دو طریقے ہیں (۱) مردہ کے سینہ پر کفن کے اندر یا کفن کے باہر رکھیں ۔ اس طریقے کوفقہا منع فرماتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ مردہ کے بدن سے خون و پیپ بہتا ہے ۔ یہ بزرگوں کے ناموں کے ساتھ بے ادبی کا باعث ہوگا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مردہ کے سر کی جانب قبر میں چھوٹا سا طاق بنائیں اور اس میں شجرہ کے کاغذ کورکھ دیں۔

اس کے اور دلائل قاطعہ و براہین ساطعہ اعلیحضرت مجدددین وملت کے رسالۂ نافعہ ’الحرف الحسن في الكتابة على الكفن“ میں مسطور میں ۔اسے ضرور ملاحظہ کیجئے ۔ والله سبحانه وتعالى اعلم وعلمه عزاسمه اتم واحكم

Post a Comment

0 Comments