مسئلہ: کیا فرماتے ہیں علماۓ دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور کہہ دیا کہ تو میرے گھر سے چلی جا۔ جب غصہ اتراتو زید نے کہا کہ میں نے دوطلاق دی ہے، تیسری طلاق کا مجھے یاد نہیں ۔ لیکن بیوی کی دوبہنیں یہ کہتی ہیں کہ ہمارے سامنے تین طلاقیں دیں۔ایسی صورت میں زید سے کہا گیا کہ تم قرآن پاک اٹھاؤ کہ تم نے تین طلاقیں نہیں دی ہیں تو زید نے جواب دیا کہ میں قرآن پاک اٹھانے کو تیار نہیں ہوں ۔ کیونک ممکن ہے کہ میں نے کہہ دیا ہولیکن یہ یقین ہے کہ دو مرتبہ ضرور کہا ہے اس کا عذاب ہو ۔ایسی صورت میں قرآن پاک نہیں اٹھا سکتا۔ ہاں تیسری مرتبہ کا خیال مجھے صحیح سے نہیں ہے ۔ لہذا مندرجہ بالاسوال کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپس میں کسی قسم کا جھگڑا بھی نہیں ہوا اور نہ ہے۔ عدت کو ایک ماہ گذر چکا ہے۔
الجواب: صورت مسئولہ میں زید کی بیوی پر دو طلاقیں واقع ہو گئیں ۔اس لئے کہ زید کو دوطلاق دینے کا یقین ہے اور تیسری کا اسکوشک وشبہ ہے ۔ شریعت طاہرہ کا قانون ہے کہ ایسی صورت میں اقل طلاق کے واقع ہونے کا حکم دیا جاۓ گا۔ اگر زید کو تین طلاق دینے کا یقین یا گمان غالب ہوتا تو تین طلاقوں کے واقع ہونے کا شرعا حکم دیا جاتا ۔
فتاوی عالمگیری جلداول ص ٣٤٠میں ہے ۔
في نوادر ابن سماعة عن محمد رحمه الله تعالى إذا شك في انه طلق واحدة أو ثلاثا فهي واحدة حتى يستيقن أو يكون أكبر ظنه على خلافه . نوادرابن ساعدہ میں امام محمد علیہ الرحمۃ سے روایت ہے کہ اگر شک ہوا کہ ایک طلاق دی ہے یا تین تو ایک ہی مانی جاۓ گی ۔ تاوقتیکہ اسے اس تعداد کے خلاف کا یقین یاظن غالب ہو۔
اور زید کی دوسالیوں کا یہ کہنا کہ ہمارے سامنے تین طلاقیں دی ہیں معتبر نہیں ۔ چونکہ طلاق کے بارے میں صرف دوعورتوں کا بیان شہادت شرعیہ کی حد کونہیں پہو نچتا۔ بلکہ دومرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی شہادت شرائط مخصوصہ کے ساتھ باب طلاق میں معتبر ہوتی ہے ۔
فتاوی عالمگیری جلد ثالث ص ۵۳۷ میں ہے۔
ومنها الشهادة بغير الحدود والقصاص وما يطلع عليه الرجال و شرط فيها شهادة رجلين أو رجل و إمرأتين سواء كان الحق مالا أو غير مال كالنكاح والطلاق والعتاق والوكالة و الوصاية و نحو ذلك مما ليس بمال كذا في التبيين. اسی میں سے غیر حدود و قصاص کے لئے شہادت ہے ۔ نیز ایسے امور کی شہادت جن پر مرد مطلع ہو سکتے ہیں ۔اس میں دو مرد یا ایک مرد اور دوعورت کی شہادت شرط ہے۔ خواہ حق مال ہو یا غیر مال جیسے نکاح ،طلاق ، عتاق ، وکالت، وصیت وغیرہا جو مال نہیں ہیں. ایساہی تبیین الحقائق میں ہے۔
زید کی بیوی کو زید سے تین طلاقوں کے نہ دینے کا قسم لینا جائز نہیں ۔فتاوی عالمگیری جلد رابع ص ۲۲ میں ہے ۔ ان اراد الـمـدعى تحليفه بالطلاق أو العتاق في ظاهر الرواية لا يجييه القاضي الى ذالك لأن التحليف بالطلاق أو العتاق و نحو ذالك حرام وهو الصحيح هكذا في فتاوی قاضيخان. طلاق یا عتاق ( غلام کو آزاد کرنا ) کی قسم لینے کا اگر مدعی ارادہ کرے تو قاضی اس کی بات نہیں مانے گا کیونکہ طلاق دینے یا آزاد کرنے کی قسم لینا حرام ہے یہی صحیح ہے جیسا کہ فتاوی قاضی خاں میں ہے۔ ہاں جب کہ صرف دو عورتیں تین طلاقوں کی ناقص شہادت دے رہی ہیں تو قاضی شرع بطور احتیاط زید سے قسم کھلواسکتاہے۔ قاضی پربھی زید سے قسم کھلوانالازم وضروری نہیں ۔
فتاوی عالمگیری جلد رابع ص ۲۵ میں ہے ۔ وكذالك إذا لم تدع المرأة ذالك و لكن شهد عند القاضي شاهد واحد عدل أو جماعة من الفساق بذالك لأن حـرمـة الـفـرج حـق الـشـرع فـكـان على القاضي الإحتياط في مثله بالإستحلاف كذا في المحيط. اسی طرح جب عورت نے دعوی نہیں کیا لیکن قاضی کے پاس ایک عادل گواہ نے گواہی دی یا کئی فاسق لوگوں نے اس کی گواہی دی کیونکہ شرمگاہ کی حرمت حق شرع ہے ۔لہذا قاضی اس جیسے حالات میں قسم کھلواسکتا ہے ۔ ایسا ہی محیط سرسی میں ہے۔
سائل نے زبانی بتایا کہ زید نے ’’میں نے تجھے طلاق دی‘‘ کے لفظ سے اپنی بیوی کو طلاق دی تھی ۔ لہذا زید کی بیوی پر دو رجعی طلاقیں واقع ہوگئیں۔ زید عدت کے اندر دو معتبر گواہوں کے سامنے یہ کہے کہ میں نے تجھ سے رجعت کی ۔ اس رجعت سے اسکی بیوی اسکے نکاح میں لوٹ آئیگی ، اور دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں پڑ گی۔
والله تعالى اعلم بالصواب
0 Comments