تمہیدی کلمات
اللہ عزوجل کے محبوب داناے خفایا وغیوب سرورکائنات محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بعثت مقدسہ کے بعد نبوت کا دروازہ تو بند ہوگیا مگر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوبیت کے تصدق سے آپ کی امت پر اللہ تبارک کایہ خصوصی انعام ہوا کہ اس نے امت کو ہرصدی اور ہردورمیں اپنے محبوبین اورمقربین سے نوازا۔ یہ مقربین بارگاہ ہمیشہ سے مردہ قوم کے اندرروح پھونکتےرہے ۔ اور برسوں سے سوءی قوم کو خواب غفلت سے جگا کر منزل مقصود کا راستہ بتایا ۔ یہ وہ مقدس ہستیاں تھیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے گمراہوں کی ہدایت ،سرکشوں کی اصلاح،حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرنے کے لئے پیدا فرمایا اور جنہوں نے اعلاء کلمتہ اللہ کی خاطر اپنا سب کچھ راہ خدا میں قربان کر دیا تھا۔ حق گوئی اور راست بازی ان کا شعار رہا ! سرفروشی، شجاعت اور شیرانہ جسارت ان کے جوہر نمایاں تھے ۔ ان کی دلیری کا یہ حال تھا کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت انہیں اپنے فرض منصبی کی ادائیگی سے باز نہ رکھ سکی ۔ ظالمانہ دہشت اور جابرانہ طبیعت رکھنے والی حکومتں بھی ان حضرات کے پائے ثبات و قدم استقلال جنبش نہ دے سکیں ۔ انہیں مقربین بارگاہ کی جماعت میں ایک ممتاز ترین ذات سیدالعارفین حضور تاج الاصفیا ابوالمجتبی مولانا پیر شاہ مصطفی اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ کا ظہور ہوا ۔
پیدائش و مکتب کشائی۔۔۔
آپ کا لقب تاج الاصفیا ، کنیت، ابو المجتبی، نام، سید مصطفی، اشرف،
والد کا نام سید علی حسین اشرفی میاں آپ کے والد گرامی اعلی حضرت عظیم البرکت سید علی حسین اشرفی میاں اک بڑے پائے کے بزرگ تھے آپ کی بارگاہ وہ عظیم بارگاہ ہے جہاں ایک بار نہیں کئی بار اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے حاضری کا شرف حاصل کیا ہے آپ کے جمال ظاہری و کمال باطنی کو فاضل بریلوی نے نگاہ بصیرت سے دیکھ کر کہا تھا
شعر:
شرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں
اے نظر کردہ پروردہ سہ محبوباں
اعلی حضرت اشرفی میاں نے دو شادیاں کی تھیں اللہ نے آپ کو دونوں بیویوں سے سے نیک اور صالح اور کشف و کرامات والے فرزند عطا فرمایا ۔ پہلی بیوی سے مولانا سید احمد اشرف جیسی عظیم شخصیت پیدا ہوئی ۔ اور دوسری بیوی جو کہ وقت کی رابعہ بصری تھیں، ان کے بدن پاک سے ٧ ذیقعدہ بروز دوشنبہ سن ١٣١١ھ کو تاج الاصفیا علامہ سید محمد مصطفی اشرف اشرفی کچھوچھوی پیدا ہوئے آپ کی یوم پیدائش پراعلی حضرت اشرفی میاں کے گھر خوشیوں کی لہر دوڑ پڑی۔ ہر طرف شادمانی منائی جارہی تھی۔ عالم مفتی فقیہ مرید عقیدت مند عام و خاص ہر ایک قرب وجوار دور دراز سے مبارکباد پیش کر رہے تھے ۔
علم ظاہری و باطنی میں کمال
علم وعرفان ہمیشہ آپ کے خاندان کا طرہ امتیاز رہا ہے بڑے نورانی ماحول میں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ جب آپ کی عمر چار سال چار مہینہ چار دن کی ہوئی تو خاندانی معمول کے مطابق آپ کی بسم اللہ خوانی آپ کے والد قطب ربانی شبیہ غوث صمدانی اعلی حضرت اشرفی میاں نے کی۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی ہی سے حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لئے آپ کے والد گرامی نے آپ کو فرنگی محل لکھنو بھیج دیا جہاں وقت کا بہت عظیم الشان ادارہ تھا۔ جہاں نابغائے روزگار علما و فضلا درس و تدریس پر فائز تھے ۔ فرنگی محل لکھنؤ میں آپ نے وقت کے اکابر علماء سے سے اکتساب علم کیا جن میں مولانا لطف اللہ علی گڑھ کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے ۔ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد آپ نے راہ طریقت میں قدم رکھا اور منازل سلوک طے کرنے کی جانب متوجہ ہوئے ۔ اورجب پیر کامل برادر کبیر کا وصال ہوگیا تو آپ نے اپنے والد گرامی سےراہ سلوک کی تکمیل کی،والد بزرگوار نے بھی آپ کو اپنی خلافت سے نوازا اور تمام معمولات سلسلہ کی اجازت بھی عطا فرمائی۔
دینی خدمات۔۔۔۔
حضور تاج الاصفیا پیر سید شاہ مصطفی اشرف کو بچپن ہی سے خدمت دین سے بڑا گہرا لگاؤ تھا۔ جب آپ نے علوم و فنون میں کمال حاصل کر لیا تو پھر دعوت و ارشاد کی خطرناک کھائ میں قدم رکھ دیا ۔ آپ نے پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کر دین کی اشاعت کی اور اپنی زندگی میں بہت سی خدمتیں انجام دیں۔ المختصر وہ جب تک با حیات رہے روشنیاں بانٹتے رہے اور پھر ١٧/ربیع الاول سنہ ١٣٨٦ھ کو سرمدی روشنیوں کی دنیا میں ہمیشہ کے لئے چلے گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
0 Comments