فون اور خط کے ذریعہ نکاح کرنا اور کرانا کیسا ہے

 سوال: کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کی ایک پاکستانی لڑکاکنیڈامیں مقیم ہے۔اس لڑکے کا رشتہ ایک ہندوستانی لڑکی سے ہونا قرارپایاہے۔دونوں کوایک جگہ اکٹھا ہونے میں دنیاوی قانونی مجبوریاں ودشواریاں حائل ہیں۔کیایہ رشتہ ٹیلیفون پرہوسکتاہے؟اگرنہیں تواس رشتہ کوکرنے کے لئے کیاطریقئہ کاراختیارکیاجائے تاکہ وقت کی ضرورت کوپوراکیاجاسکے؟ بینوا و توحروا۔


الجواب:  ٹیلیفون پرمیاں بیوی کاباہم درباب نکاح ایجاب وقبول کرناصحت نکاح کے لئے مفیدنہیں۔خواہ ایک محلہ میںہویاایک شہرمیں ہی بذریعہ ٹیلیفون نکاح کے متعلق ایجاب وقبول کیاجائے ۔ایسے ایجاب وقبول سے شرعانکاح منعقد نہیں ہوگا۔چونکہ ایجاب وقبول کا ایک ہی مجلس میں ہوناانعقادنکاح اورصحت نکاح کے لئے شرط وضروری ہے۔صورت مسئولہ میں توایک ملک سے دوسراملک کافی بعدودوری پرواقع ہے۔اتحادمجلس کی شرط مفقودومعدوم ہورہی ہے۔نیزدوگواہوں کی موجودگی اورسماع کلمات ایجاب وقبول اورکلمات ایجاب وقبول سن کر یہ سمجھناکہ باہم نکاح ہورہاہے یہ چیزیں بھی انعقادنکاح کے لئے شرط ہیں ۔اورٹیلیفون پر یہ تمام شرط نہیں پائی جاتیں۔نیزٹیلیفون پرآوازاتنی خفیف اورہلکی ہوتی ہے کہ صحیح معنی میں آوازکی شناخت اورتمیزنہیں ہوتی کہ یہ آوازکس کی ہے۔ اوربقاعدہ شرعیہ الصوت یشبہ الصوت میاں بیوی کا معلوم وممتازہوناٹیلیفون کی آواز سے حاصل نہیں ہوتا۔اس لئے بھی یہ عقدٹیلیفون پرنہیں ہوسکتا۔لہذامعاملہ نکاح ٹیلفون پر ہرگز ہرگز نہ کیاجائے۔صورت مسولہ میں سہل طریقہ یہ ہے کہ نکاح کرنے والا شخص دو مستند گواہوں کے سامنے اپنی مخطوبہ بالغہ کو خط لکھے کہ میں نے تم فلانہ بنت فلاں ساکن فلاں و محلہ فلاں کو بعوض دین مہر مبلغ دس ہزار روپے مثلا اپنے نکاح میں لیا اورپھروہ خط گواہان مذکورکوسنائے۔اوران کے سامنے ہی بعد دستخط اس خط کوبندکرکے دونوں گواہوں سے کہے کہ میں نے آپ دونوں کواس خط اوراس کے مضمون پرگواہ بنایا۔آپ دونوں میرایہ خط لےجاکرفلاںابن فلاں،ساکن شہرفلاں ومحلہ فلاں کو پہونچا دیجئے اور یہ کہئے کہ ہم دونوں گواہی دیتے ہیں کہ یہ خط فلاں ابن فلاں ساکن چہر فلاں نے ہمارے سامنے لکھاہے جس میں تم سے ایجاب نکاح کامضمون ہے۔تم ہمارے سامنے خط کھول کر پڑھو اورہمیں بھی سناؤ اورہمارے سامنے اس نکاح کوقبول کرو۔بعد قبول اس طرح یہ نکاح صحیح وجائز اورحتمی ویقنی طورپرنافذ ہوگا۔اوردوسرا آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ ایک شخص معتمدکوہونے والے نوشاہ اورہونے والی دلہن دونوں اپنے اپنے نکاح کاوکیل مطلق تحریری طورپرباضابطہ بنادیں۔جس میں تمام ضروری امورکی تعیین کردی جائے اوروہ وکیل طرفین کاوکیل بن کردوگواہوں کے سامنے یہ کہہ دے کہ میں نے بحق وکالت فلاں کی بیٹی فلانہ کانکاح،فلاں کے بیٹے فلاں سے کردیا۔فتاویٰ عالمگیری مصری جلداول ص:۲۵۲میںہے۔

(ومنھا)أن یکون الایجاب والقبول فی مجلس واحدحتی لو اختلف المجلس بأن کاناحاضرین فاوجب أحدھما فقام الآخرعن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل یوجب اختلاف المجلس لاینعقدوکذا اذاکان أحد ھماغائباََلم ینعقدحتی لوقالت امرأۃ بحضرۃ شاھدین زوجت نفسی من فلان وھوغائب فبلغہ الخبر فقال: قبلتُ،أوقال رجل بحضرۃ شاھدین:تزوجت فلانۃ وھی غائبۃ فبلغھاالخیر فقالت زوجت نفسی منہ لم یجز وان کان القبول بحضرۃ ذینک الشاھدین وھذا قول أبی حبیفۃ ومحمد رحمھمااللہ تعالی۔شرائط نکاح میں سے ایک یہ ہے کہ ایجاب و قبول ایک ہی مجلس میں ہو۔لہٰذا اگر مجلس بدل گئی اس طرح کہ موجود تھے اور ایک نے ایجاب کیا مگر دوسرا قبول کرنے سے پہلے ہی مجلس سے اٹھ گیا یا کسی ایسے عمل میں مشغول ہوگیا جومجلس بدل جانے کی موجب ہے تونکاح منعقد نہیں ہوگا۔اسی طرح اگردومیں سے ایک غائب رہاتونہیں منعقدہوگا۔یہاں تک کہ اگرعورت نے دوگواہ کی موجودگی میں کہا کہ میں نے فلاں آدمی سے اپنانکاح کیااوروہ آدمی غائب تھا۔پھراسے خبرپہنچی تواس نے کہا میں نے قبول کیایامردنے دوگواہ کی موجودگی میں کہا۔’’میں نے فلانہ عورت جوموجودنہیں ہے اس سے شادی کی پھراسے خبرپہونچی تو اس نے کہامیں نے اس سے شادی کرلی‘‘تویہ نکاح جائزنہیں۔اگرچہ قبول ان دونوں گواہوں کی موجودگی میں ہواہو۔یہ امام اعظم ابوحنیفہ اورامام محمدرحمہمااللہ کاقول ہے۔درمختارمصری جلدثانی ص:۳۳۴میں ہے۔

(ویتولی طرفی النکاح واحد)بایجاب یقوم مقام القبول فی خمس صور کان کان اولیاأو وکیلامن الجانبین۔

مردوعورت دونوں جانب سے ایک ہی آدمی نکاح کرسکتاہے۔وہ ایجاب کری گاجوقبول کے قائم مقام ہوگا۔پانچ اصورتوں میں ٘مثلا نکاح کرنے والا دونوں کا ولی ہو یاوکیل ہوجاے۔ا سی تحت ردالمختار میں ہے۔

کزوجت۔۔۔۔موکلی فلاناموکلتی فلانۃ قال ط:ویکفی شاھد ان علی وکالتہ،ووکالتھا وعلی العقدلان الشاھدیتحمل الشھادات العدیدۃ۔

جیسے کہا۔۔۔۔’’میں نے اپنے فلاںموکل کانکاح اپنی فلانہ موکلہ سے کردیا ‘‘۔دونوں کی وکالت پردوگواہ کافی ہے اورعقد نکاح پربھی دوگواہ کافی ہے۔کیونکہ ایک گواہ کئی گواہیوں کاحامل ہوسکتاہے۔واللہ تعالی اعلم۔


Post a Comment

0 Comments