سلسلہ نسب: امام احمد رضا بن مولانا نقی علی خان بن مولانا رضا علی خان بن حافظ کاظم علی خان بن محمد اعظم خان بن سعادت یار خان بن سعید اللہ خان۔
والد ماجد: مولانانقی علی خان (ولادت: ۱۲٤۲ھ/ ۱۸۳۰ء-وفات: ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰) اپنے عہد کے بلند پایہ عالم تھے ، فتوی نویسی کے علاوہ چھوٹی بڑی پچیس کتابیں تصنیف فرمائیں ، جن میں سے کچھ ہی کتابیں چھپ سکیں "سرور القلوب في ذكر المحبوب " اور "جواهر البيان في اسرار الاركان "" تفسیر سورہ الم نشرح " یہ ضخیم کتابیں بار بارچھپ کر دنیا میں پھیل چکی ہیں ۔ ان کا شمار شہر کے رؤسا میں تھا۔
خاندانی پس منظر: اعلی حضرت امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ کے آباو اجداد قندھار (افغانستان کے قبیلہ بڑیچ کے معزز پٹھان تھے ، شاہان مغلیہ کے دور میں لاہور آۓ اور باعزت عہدوں پر فائز رہے ۔لاہور کا شیش محل انہی لوگوں کی جاگیر تھی ، پھر وہاں سے منتقل ہو کر دہلی آۓ ، دہلی میں سعید اللہ خاں (اعلی حضرت قدس سرہ کے مورث اعلی کو فوج میں اونچا منصب ملا ، روہیل کھنڈ میں ایک بڑی مہم سر کرنے کے بدلے بریلی کا صوبہ دار بنائے جانے کا شاہی فرمان جاری ہوا،لیکن بستر علالت پر ہونے کی وجہ سے اس پر عمل نہ ہوسکا، تاہم بریلی ہی میں سکونت پذیر ہوۓ ، اس جانب اشارہ کرتے ہوۓ خانوادہ رضویہ کے جلیل القدر عالم دین حضرت مولانا حسنین رضا( متوفی ۱٤۰۱ھ /۱۹۸۱ء) رقم طراز ہیں: ”بریلی کی سکونت اس لیے مستقل ہو گئی کہ اس دور میں کوہستان روہ کے کچھ پٹھان خاندان یہاں آکر آباد ہو گئے تھے ، ان کے لیے ان کا جوار بڑا خوش گوار تھا، اس واسطے کہ ان سے بوۓ وطن آتی تھی“۔
ولادت: ۱۰ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ ١٤ جون ١٨٥٦ء/ ۱۱ جیٹھ ۱۹۱۲ سدی ، بروز شنبه بوقت ظہر، بمقام محلہ جسولی،بریلی میں ولادت ہوئی ۔
تاریخ ولادت قرآن پاک کی اس آیت سے نکلتی ہے ۔
" أوليك كتب في قلوبهم الإيمان وأيدهم بروح منه “. [المجادلہ:۲۲] یہی ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اللہ تعالی نے ایمان نقش فرمادیا ہے اور روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرمائی۔
تعلیم و تربیت: طفولیت ہی سے پیشانی سے نور سعادت ہویدا تھا، جسے اہل نظر نے ملاحظہ بھی کیا اور نشان دہی بھی کی کہ یہ بچہ مستقبل میں آفتاب علم وفضل ہوگا، اس کے آثار اس طرح ظاہر ہوۓ کہ آپ اوائل عمری ہی سے طہارت نفس ، اتباع سنت ، پاکیزہ اخلاق اور حسن سیرت جیسے اوصاف سے متصف تھے۔ ٤ سال کی عمر میں قرآن ناظرہ پڑھا، چھ سال کی عمر میں ماہ ربیع الاول شریف میں منبر رسول پر بڑے مجمع میں میلاد رسول صل اللہ علیہ وسلم بیان کی ، تعلیمی سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ ۱۳۸۶ھ میں تیرہ سال دس ماہ کی عمر میں جملہ علوم متداولہ کی تحصیل کر لی ۔
اساتذہ: اساتذہ کی فہرست مختصر ہے ، بیش تر علوم و فنون کی تعلیم والد ماجد سے حاصل کی ، البتہ ابتدائی تعلیم کے لیے مرزا غلام قادر بیگ (متوفی ۱۳۰۱ھ/۱٨۸۳)اور مولانا عبد العلی رام پوری (متوفی ۱۳۰۳ھ/۱۸۸۵ء)، کے روبرو زانوے اب تہ کیا.
تدریس و افتا: فراغت کے ساتھ ہی رضاعت کا ایک مسئلہ لکھا، والد گرامی کی بارگاہ میں پیش کیا، انھوں نے صحیح جواب پاکر فتوی نویسی کی ذمہ داری تفویض کی ۔ سات سال تک والد گرامی کی سر پرستی میں فتاوی تحریر فرماتے رہے ۔ خود فرماتے ہیں:رد وہابیہ اور افتا یہ دونوں ایسے فن ہیں کہ طب کی طرح یہ بھی صرف پڑھنے سے نہیں آتے ،ان میں بھی طبیب حاذق کے مطب میں بیٹھنے کی ضرورت ہے ، میں بھی ایک حاذق طبیب کے مطب میں سات برس بیٹھا۔ آپ نے کار افتا کے ساتھ مسند تدریس کو بھی زینت بخشی ۔
بیعت و خلافت:١٢٩٤ھ/۱۸۷۳ء میں مارہرہ گئے اور مسند نشیں سید شاہ آل رسول مارہروی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے نیز تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز ہوۓ ۔
حج و زیارت: ١٢٩٥ھ بمطابق ١٨٧٣ء میں حج و زیارت کے لیے تشریف لے گئے ،اس موقع پر علماے حرمین طیبین مثلا مفتی حنفیہ حضرت عبدالرحمن ( متوفی ۱۸۸۳ء) اور مفتی شافعیہ سید احمد بن زینی دحلان مکی (متوفی ۱۳۰۴ھ / ۱۸۸۲ء) وغیرہ سے حدیث،فقہ، تفسیر، اصول فقہ اور اصول حدیث کی اسناد حاصل کیں اور خود بیش تر علما کو اسناد سے نوازا۔ ۱۳۲۳ھ /۱۹۰۵ میں دوسری مرتبہ عازم حج ہوۓ ، اس مرتبہ علماے عرب نے بے حد عزت افزائی کی ۔
ان دونوں اسفار میں کئی عربی کتابیں تالیف کیں ، جنھیں پڑھ کر علماے عرب آپ کی تبحر علمی اور قوت استحضار و استدلال کی تعریف و تحسین کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ بالخصوص مؤخر الذکر سفر میں علماے حرمین کے سامنے ان گستاخان رسول کی کفریہ عبارتیں پیش کیں جن کی آپ نے تکفیر کی تھی۔ انھوں نے فتوے پڑھ کر بلا تامل حمایت و تائید کی ، جس کا منہ بولتا ثبوت حسام الحرمین پر مندرج علماے عرب کی تقاریظ ہیں ۔
مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے شاگرد، سید ابوالاعلی مودودی کے سابق معتمد ، ہفت روزہ ”شہاب “لاہور کے چیف ایڈیٹر مولانا کوثر نیازی (ولادت:۱۹۳۴ء) نے امام احمد رضا کانفرنس اسلام آباد منعقدہ ۱۹۹۳ء کو خطاب کرتے ہوۓ کہا: ”میری اپنی ذاتی لائبریری میں دس ہزار سے زیادہ کتابیں ہیں وہ سب مطالعہ سے گزری ہیں ،اس مطالعہ کے دوران امام احمد رضا کی کتب نظر سے نہیں گزری تھیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ علم کا خزانہ پالیا ہے اور علم کا سمندر پار کر لیا ہے ۔ علم کی ہر جہت تک رسائی حاصل کر لی ہے ۔ مگر جب امام اہل سنت ( مولانا احمد رضا بریلوی کی کتابیں مطالعہ کیں ، ان کے علم کے دروازے پر دستک دی اور فیض یاب ہوا تو اپنے جہل کا احساس اور اعتراف ہوا۔ یوں لگا کہ ابھی تو میں علم کے سمندر کے کنارے کھڑا سپیاں چن رہا تھا علم کا سمندر توامام کی ذات ہے "۔
تجدیدی کارنامے: امام احمد رضا قدس سرہ کے زمانے میں نت نئے فتنے سر ابھار رہے تھے ، جن کے ذریعہ مسلمانوں کو مذہبی،معاشرتی، سیاسی اور معاشی سطح پر کمزور کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ۔ اعلی حضرت قدس سرہ نے ان فتنوں کی سرکوبی ، احیاے دین اور رد بدعات و منکرات کی خاطر اپنی زبانی قلمی اور عملی توانیاں صرف کیں جس کا نہ صرف اعتراف کیا گیا بلکہ آپ کی مجددیت کا اقرار و اعلان بھی کیا گیا۔
مجددیت کا اعلان : ۱۳۱۸ھ/۱۹۰۰ء میں پٹنہ کے عظیم الشان تاریخی اجلاس میں محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی احیاے سنت ،ازالۂ بدعت ، رد بدمذہباں اور اصلاحی و رفاہی خدمات کو دیکھ کر مولانا عبد المقتدر بدایونی ( متوفی ۱۳۳۵ھ / ۱۹۱۶ء) نے ارشاد فرمایا: " جناب عالم اہل سنت ، مجد و ماۃ حاضرہ مولانا احمد رضا خاں صاحب “۔ اجتماع میں موجود تمام علمائے کرام نے اس کی تائید کی.
شان فقاہت : امام احمد رضا قادری بریلوی قدس سرہ العزیز کا پایہ علمی بہت بلند تھا۔ جب کسی مسئلہ کی تحقیق کے لیےمیدان میں آتے تو اس کا حق ادا کر دیتے۔ بطور مثال دو فتوے کی طرف نگاہ کیجیے: سفر حج کے دوران مکہ مکرمہ میں نوٹ کے متعلق سوال کیا گیا، یہ بارہ سوالات تھے ، یہ مسئلہ اس وقت بڑا اہم تھا، کیوں کہ اس کی ابتدا تھی ۔ امام احمد رضا قدس سرہ نے محرم الحرام ۱۳۲۴ھ میں تقریباڈیڑھ دن کے اندر جوابات ضبط تحریر کیے۔اس رسالے کا نام ” كفل الفقيه الفاهم في أحكام قرطاس الدراهم“ (۱۳۲۴ھ ) رکھا۔ آپ نے تمام سوالات کے مدلل و مبرہن جواب دیے ، جن میں جواب اول کا خلاصہ درج ذیل ہے:
سوال: کیا وہ ( کاغذی نوٹ ) مال ہے یا دستاویز کی طرح کوئی سند ؟
آپ نے یہ کثرت دلائل و براہین سے نوٹ کو مال ثابت کیا ہے ، چناں چہ آپ فرماتے ہیں: ” وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے اور کاغذ مال متقوم ہے اور اس سکہ نے اسے کچھ زیادہ نہ کیا مگر یہی کہ لوگوں کی رغبتیں اس طرف بڑھ گئیں اور وقت حاجت کے لیے اٹھار رکھنے کا زیادہ لائق ہو گیا اور مال کے یہی معنی ہیں یعنی وہ جس کی طرف طبیعت میل کرے اور حاجت کے لیے اٹھا رکھنے کے قابل ہوا۔ پھر آپ نے اس تعریف کو ’ردالمحتار “ کی درج ذیل عبارت سے واضح کیا ہے : "وفيه عن التلويح المال ما من شانه ان يدخر للانتفاع وقت الحاجة والتقويم يستلزم المالية“. اس کی مزید توضیح فتح القدیر کی اس عبارت سے کرتے ہیں: ”لو باع كاغذة بالف يجوز ولايكره"۔
کوئی شک نہیں کہ نوٹ بذات خود قیمت والامال ہے کہ بکتا ہے اور مول لیا جا تا ہے اور ہبہ کیا جا تا ہے اور وراثت میں آتا ہے اور جتنی باتیں مال میں جاری ہیں سب اس میں جاری ہوتی ہیں “۔ (ملخصا) (۴) اس فتوے کو پڑھ کر علما عش عش کر اٹھے اور انھیں اپنے طائر فکر و تحقیق کی کوتاہ پروازی کا احساس ہوا۔ ایک مرتبہ اعلی حضرت قدس سرہ سے سوال کیا گیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے یا دارالحرب ؟ اس سلسلے میں تحقیقی بحث فرمائی، جس کا نام ”اعـلام الاعلام بان هندوستان دارالاسلام“ ہے۔اس کے اندر امام احمد رضا قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں: ”ہمارے امام اعظم بلکہ علمائے ثلاثہ علیہم الرحمہ کے مذہب پر ہندوستان دارالاسلام ہے دارالحرب ہرگز نہیں ہے کہ دارالاسلام کے دارالحرب ہوجانے میں جو تین باتیں ہمارے امام اعظم امام الائمہ کے نزدیک در کار ہیں ان میں سے ایک یہ کہ وہاں احکام شرک علامیہ جاری ہوں اور شریعت اسلام کے احکام و شعائر مطلقا جاری نہ ہونے پائیں اور صاحبین کے نزدیک اسی قدر کافی ہے. مگر یہ بات بحمد اللہ یہاں قطعاً موجود نہیں. اہل اسلام جمعہ و عیدین و اذان و اقامت و نماز با جماعت و غیرہا شعائر شریعت بغیر مزاحمت علی الاعلان اداکرتے ہیں ۔متعدد قدیم فقہی کتب کے حوالوں سے آپ نے اپنا موقف واضح کیا ہے ۔اعلی حضرت کا مختصر سوانحی خاکہ، سوانح اعلی حضرت۔
کنزالایمان ایک عظیم کارنامہ:
گذشتہ صفحات کے مطالعہ سے واضح ہو گیا کہ امام احمد رضاقدس سرہ کے زمانے میں فتنہ سامانیوں کا ایک طوفان بپا تھا۔ اسلام مخالف لیٹر یچرس عام کیے جارہے تھے ۔ نیرنگی زمانہ کہیے کہ اسے دین کی باتیں کہ کر فروغ دیا جارہا تھا، قرآن کے متنوع تراجم بھی معرض وجود میں آۓ ، دلوں میں چھپے ہوۓ شیطانی جذبوں کی تسکین کے لیے تراجم میں معنی آفرینی بھی کی گئی اور اپنے غلط نظریات کی ترویج کے لیے تراجم قرآن کا سہارا لیا گیا۔ اور جابجاشان الوہیت ورسالت میں لغزشات کاارتکاب کیا گیا۔ امام احمد رضا قدس سرہ کے تلامذہ خاص طور سے صدرالشریعہ مفتی امجد علی (مصنف بہار شریعت) کو اس کااحساس ہوا کہ وقت کا جبری تقاضا ہے کہ قرآن کا ایسا اردو ترجمہ ہو جو اکابر و اسلاف کے تراجم و تفاسیر سے لگاؤ کھاۓ ۔انہیں جذبوں کے ردعمل میں انہوں نے اعلی حضرت قدس سرہ سے ترجمہ قرآن کی گذارش کی ۔ اعلی حضرت مرجع فتاوی تھے ، دن بھر استفتا کے جوابات تحریر کرتے ،وقت کی قلت دامن گیر رہتی؛ اس لیے فرمایا: جب قیلولہ کا وقت ہو تو اس وقت تحریر کرادوں گا۔ وہ املا کراتے ، صدرالشریعہ لکھتے جاتے ۔ اعلی حضرت کو سنایا جاتا ، اس کے بعد معتبر تراجم و تفاسیر سے مقابلہ کیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ انہیں تراجم و تفاسیر کو سامنے رکھ کر املا کرایا گیا ہے ۔ یہ بحر تفسیر کی شناوری کا عالم تھا ۔ آج دنیاے سنیت اسی ترجمے سے استفادہ کر رہی ہے ۔ اعلی حضرت قدس سرہ کا یہ کارنامہ ، تجدیدی کارناموں کے زمرے میں آتا ہے ۔
آئے ، چند آیتوں کے تحت اعلی حضرت قدس سرہ اور دیگر حضرات کے تراجم کا تقابلی جائزہ لیں :
ارشاد قرآنی ہے:”الله يستهزء بهم “. [البقرة،۱۵]
اس کے ترجمے یہ کیے گئے ہیں:
(1) اللہ ان سے ٹھٹھا کرتا ہے (سر سید احمد خان)
(2)اللہ ان کو بناتا ہے. (ڈپٹی نذیر احمد)
(3) ان منافقوں سے خدا ہنسی کرتا ہے (فتح محمد جالندھری)
(4) اللہ ہنسی اڑاتا ہے ان کی ( مرزا حیرت)
(5) اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے ( شیخ دیوبند محمود حسن)
(6) اللہ جل شانہ ان سے دل لگی کرتا ہے (نواب وحید الزمان)
دیکھے ! اگران مترجمین کو تائید ربانی حاصل ہوتی اور ان کے قلوب میں اللہ تعالی کی عظمت و جلال کاسچا تصور ہوتا تو وہ اس سبوح و قدوس کے حق میں دل لگی کرنا، ٹھٹھا کرنا، بنانا، ہنسی اڑانا و غیره بازاری محاورے ہرگز استعال نہ کرتے۔ یہ جاننا کہ رب العزت جل جلالہ کی بارگاہ عظمت ٹھٹھا کرنے ، ہنسی اڑانے وغیرہ عیوب سے پاک ہے صرف مرد مومن موید من اللہ ہی کا کام ہے ۔ ان ترجموں کو دیکھنے کے بعد کیا کسی ایسے ترجمے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی جو معارف قرآن کا راز داں ہو۔ اعلی حضرت کا ترجمہ دیکھے: ”اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے (جیسا اس کی شان کے لائق ہے)۔
نیز ارشاد قرآنی ہے ”وعصى آدم ربه فغوى».[سورہ: طہ، آیت:۱۴۱] اس کا ترجمہ مولوی عاشق الہی میرٹھی نے اس طرح لکھا ہے: ”اور آدم نے نافرمانی کی اپنے رب کی پس گمراہ ہوئے۔اس ترجے میں مترجم نے سیدنا آدم علیہ الصلاة والسلام کو گمراہ ٹہرایا۔ حالاں کہ حضرت آدم ایک معصوم نبی ہیں، ان کی بارگاہ گمراہی سے پاک ہے ۔ ایسے گمراه مترجمین کے ترجمے کے بعد ضرورت تھی کہ کوئی ایسا ہدایت یافتہ شخص ترجمه کرے جس کا سینہ آداب نبوی سے مملو ہو۔
اعلی حضرت قدس سرہ کاعشق و عرفان سے بھر پور ترجمہ یوں ہے:" اور آدم سے اپنے رب کے علم میں لغزش واقع ہوئی توجو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی“۔
مذکورہ بالا تقابلی تراجم سے واضح ہوگیا کہ علی حضرت نے کسی باریک بینی سے قرآن کا ترجمہ کیا اور ناموس الوہیت ورسالت کی حفاظت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
امام احمد رضا کے دبستان تجدید و احیائے دین کے چند گلہاے خوش رنگ آپ کی نظروں سے گزرے۔ اس معلوم ہو گیا کہ ان کے دور میں فتنوں کا ایک سیلاب تھا جو ہندی مسلمانوں کے اقدار و روایات کو بہا لے جانا چاہتا تھا. امام احمد رضا نے اس سیلاب پر بند باندھا اور اکابر و اسلاف سے امت مسلمہ کا رشته مربوط رکھنے کی کامیاب کوشش کی۔ ان کی کوششیں بار آور ہوئیں اور اسی کا ثمرہ ہے کہ آج عشق رسالت کی رعنائیوں سے قلب و نظر شاد کام ہورہے ہیں ۔
اگران کی غیر معمولی جد و جہد کی بہاریں نہ ہوتیں تو امت مسلمہ کو اپنی اصلاح اور صحیح راہ کی تلاش و جستجو میں صدیاں لگ جاتیں ؛اس لیے ہمیں ہمیشہ اس محسن کا احسان مند اور منت کش رہنا چاہیے۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم ،
جس سمت آگئے ہو سکےبٹھا دیئےہیں
ماخوذ.... از... کتاب: فروغِ رضویات میں فرزندان اشرفیہ کی خدمات.
0 Comments