شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃاللہ علیہ

نام و نسب: نام: سید علی حسین ،کنیت:ابواحمد ، لقب: اعلی حضرت، شیخ المشائخ تخلص اشرفی ہے ۔ آپ کا شجرہ نسب چوبیس واسطوں سے حضرت شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ سے جا ملتا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت مولاناسید شاہ علی حسین ابن حاجی سید شاه سعادت علی ابن سید شاہ قلندر بخش ابن سید شاہ تراب اشرف ابن سید شاه محمد نواز ابن سید شاہ محمد غوث ابن سید شاہ جمال الدین ابن سید شاہ عزیز الرحمن ابن سید شاه محمد عثمان ابن سید شاہ ابوالفتح ابن سید شاہ محمد ابن سید شاہ محمد اشرف (م:۹۱۰ھ) ابن سید شاہ حسن (م:۷۹۸ھ) ابن سید شاہ عبد الرزاق،نور العین (م:۸۷۲ھ) آپ حضرت سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنہ (م:۸۰۸ھ)کے بھانجے ہیں ۔ابن سید عبد الغفور حسن ابن سید شاہ ابوالعباس ابن سید شاہ بدر الدین حسن ابن سید شاہ علاؤ الدین ابن سید شاہ شمس الدین این سید شاو سیف الدین نجی ابن سید شاہ ظہیر الدین ابن سید شاه ابونصر محمد ابن سید شاہ محمد الدین ابو صالح نصر ابن سید شاہ قاضی القضاة تاج الدین خلف اکبر غوث اعظم دستگیرسید ناشیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی (م:٥٦١ھ)رضی اللہ عنہ. 

حضرت قبلہ اشرفی میاں قدس سرہ العزیز کے والد ماجد حضرت سید شاہ سعادت علی علیہ الرحمہ قابل ذکر ولی کامل اور باکرامت بزرگ تھے ۔ آپ سیدنا مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ عنہ کے بھانجے حضرت سید نا عبدالرزاق نور العین (نوراللہ مرقدہ) کی اولاد سے ہیں۔

ولادت :آپ کی ولادت باسعادت حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہ الرحمہ کی نگری کچھوچھہ شریف میں۲۳ ربیع الثانی ١٢٦٦ھ بروز پیر صبح صادق کے وقت بمطابق دسمبر ١٨٢٦ء میں ہوئی۔

تعلیم و تربیت: حضور شیخ المشائخ بچپن ہی سے عمدہ خصلت ، نیک سیرت ، پاکیزہ صفات ، والدین اور اساتذہ کے اطاعت شعار تھے ۔اور تمام معاصر بچوں میں امتیازی شان کے مالک، جب آپ کی عمر شریف کے چار ماہ چار دن ہوۓ تو خاندانی معمول کے مطابق حضرت مولانا گل محمد صاحب خلیل آبادی نے رسم تسمیہ خوانی کرائی جو ایک صاحب دل عارف حق اور مقرب بار گاہ ایزدی تھے۔

فارسی کی ابتدائی کتابیں حضرت علامہ امانت علی صاحب کچھوچھوی ، حضرت علامہ سلامت علی گورکھ پوری اور مولانا قادر بخش کچھوچھوی سے پڑھیں ، صرف سولہ سال کی قلیل عمر میں تمام علوم ظاہرہ کی تکمیل فرمائی۔ 

۱۲۹۰ھ میں آپ نے مکمل ایک سال تک آستانہ عالیہ اشرفیہ پر حسب ارشاد مشائخ کرام تارک الدنیا ہو گئے ، چلہ کشی فرمائی اور معرفت و طریقت کے منازل اس طرح طے فرماۓ کہ آپ کی ذات والا صفات سے آثار جہاں گیری نمودار ہونے لگے ۔

اشرف المشائخ،محبوب یزدانی،مخدوم الملک حضرت سلطان سید اشرف جہاں گیر سمنانی رضی اللہ عنہ کی دعا اور فیض وکرم سے اس مقدس خاندان میں جلیل القدر اولیا و مشارخ پیدا ہوۓ ہیں ۔ لیکن وہ آفتاب رشد و ہدایت جس نے سلسلہ عالیہ اشرفیہ کی تجدید کی وہ حضور شیخ المشائخ کی ذات گرامی ہے ، نہ صرف پاکستان و ہندوستان بلکہ بلاد اسلامیہ شام و عراق ، مصر وحلب وغیرہ کا طویل سفر فرماکر سلسلۂ اشرفیہ کی تجدید فرمائی۔ 

حضرت اشرفی میاں کو اللہ تعالی نے ایسا حسن و جمال اور جاہ و جلال عطا فرمایا تھا جس کی وجہ سے حضرت کو شبیہ غوث اعظم کہا جا تا تھا، ان کے چہرہ پر نور کی زیارت سے دل پر اتنا گہرا اثرپڑتا تھا کہ دل پکار اٹھتا کہ یہ اللہ کا سچاولی ہے ۔


بیعت وخلافت :۱۲۸۲ھ میں اپنے برادر بزرگ حضرت سید شاہ ابو محمد اشرف حسین سے بیعت ہوئے اور پہلی خاندانی خلافت بھی آپ کو برادر بزرگ سے ہی حاصل ہوئی، ان کے علاوہ آپ کو سلسلہ قادریہ کی حضرت راج شاہ سوندھی ، قادریہ منوریہ کی حضرت محمد امیر کاہلی ، قادریہ برکاتیہ کی حضرت سید شاہ آل رسول مارہروی اور سلسلہ چشتیہ صفویہ کی حضرت شاہ خلیل میاں صفوی پوری سے خلافت و اجازت حاصل تھی ۔ 

مسند سجادگی : آپ کے برادر کبیر اور پیر و مرشد حضرت مولانا سید شاہ ابو محمد اشرف حسین نے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کے بعد آپ کو ٢١ سال کی عمر میں ٣ ربیع الاول ۱۲۸۶ھ /۱۸۶۱ء کو مسند سجادگی عطافرمائی ۔


زیارت حرمین طیبین: پہلا حج ۱۲۹۳ھ میں کیا جس میں قاسم نعمت ﷺ کی دربار گوہر بار سے بعض نعمتیں خاص طور سے عطا ہوئیں ۔ دوسرا حج ۱۳۲۳ھ میں فرمایا جس میں بعض اذکار و اشغال کی اجازت مشائخ حرمین سے حاصل ہوئی ۔ تیسرا حج ۱۳۲۹ھ میں ادا کیا اور زیارت مدینہ منورہ،طائف شریف، بیت المقدس و دیگر مقامات عالیہ میں حاضر ہوکربے شمار نعتیں حاصل فرمائیں۔ آخری حج ۱۳۵۴ھ میں فرمایا جس میں صدہا علما و مشائخ داخل سلسلہ ہوۓ اور اجازت و خلافت سے نوازے گئے ۔ 


آپ کی دینی و تبلیغی سرگرمیاں اور اشاعت اسلام آپ نے بحیثیت سجادہ نشیں خانقاہ کھوچھہ کبھی بھی گوشہ نشینی کی زندگی کو اہمیت نہیں دی بلکہ ہمیشہ رسم شبیری کی کوشش میں لگے رہے ۔ آپ ہی کے مبارک عہد میں سلسلہ اشرفیہ ہند و بیرون ہند پھیلا اور دنیا خانقاہ کچھوچھہ سے واقف ہوسکی۔ 

آپ تاحیات دارالعلوم اشرفیہ کے سرپرست رہے ، اس علاقہ میں اصلاح اور ارشاد کا کام بحسن و خوبی انجام دیا۔ حضرت شیخ المشائخ اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے وعظ و تقریر کے ذریعہ دین متین کی تبلیغ توکی ہی،متعدد مدارس و مساجد کی سنگ بنیاد رکھ کر اور ان کی سرپرستی فرماکر بھی بے مثال خدمات دینیہ کا فریضہ انجام دیا۔ مدرسہ اشرفیہ ضیاء العلوم خیر آباد اعظم گڑھ ، مدرسہ فیض العلوم محمد آباد گوہنہ اور دیگر مدارس قائم فرماۓ ۔ آپ نے بیت و ارشاد کے ذریعہ لاکھوں مسلمانوں کو اپنے روحانی فیوض و برکات سے مالا مال کیا ۔ سلسلہ اشرفیہ کی مقبولیت آپ ہی کے باطنی کمال اور عرفانی و روحانی مراتب کا ثمرہ ہے ۔

شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃاللہ علیہ
شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃاللہ علیہ


دار العلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم کی سنگ بنیاد
ڈاکٹر فضل الرحمان شرر مصباحی اپنے مضمون ” اشرفی، اشرفیہ اور اشرف العلما“ میں اپنی بہن کے حوالے سے اہل مبارک پور کا آنکھوں دیکھا حال اور الجامعةالاشرفیہ کی تقریب سنگ بنیاد کے سلسلہ میں رقم طراز ہیں: ”مشرقی ہند کا عظیم الشان دینی ادارہ دار العلوم اشرفیہ جو اب جامعہ اشرفیہ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کی نیو آپ ہی کی رکھی ہوئی ہے اور آپ ہی سے منسوب ہو کر یہ ادارہ چہار دانگ عالم میں بلندیوں کی سطح مرتفع پر دیکھا جاتا ہے ۔ 

ہمارے مبارکپور اور اطراف میں حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ کو میاں بابا کے نام سے جانا جاتا ہے ، جب میاں بابا پالکی پر سوار ہوکر قصبہ میں آتے اور حاجی خیر اللہ دلال صاحب کے مکان واقع لال چوک پر فروکش ہوتے تو آپ کی زیارت کے لیے ازدحام خلائق ہو جاتا تھا، میری بڑی بہن عابدہ بیگم اپنے بچپن کا قصہ سناتیں کہ جب میاں بابا مبارک پور آتے تھے تو پورے قصبے میں عید کا ساسماں ہو جاتا تھا ، کیا بچے ، کیا جوان ، کیا بوڑھے ، کیا مرد ، کیا عورتیں ہر ایک میاں بابا کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونے کے لیے لال چوک کی طرف رخ کرتا تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مبارک پور میں دار العلوم اشرفیہ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا، لیکن اہل سنت و جماعت کا ایک ادارہ بنام مصباح العلوم محلہ پرانی بستی میں قائم تھا۔ جب اہل قصبہ کو ’’جاۓ تنگ است و مردمان بسیار “ کے مصداق ضرورت کے اعتبار سے ادارہ کی توسیع کا خیال آیا تو مبارک پور کے رئیس اعظم جناب شیخ محمد امین انصاری نے چند رؤسارے قصبہ حاجی محمد عمران انصاری ، حاجی محمد یوسف مناظر اشرفی،حاجی یاد علی اشرفی ، حاجی محمد رفیع سوداگر اشرفی اور حاجی محمد طلحہ وغیر ہم کو بلا کر ایک مشاورتی میٹنگ کی ، جس میں طے پایا کہ موجودہ ادارہ ضرورت کی کفالت نہیں کرتا اس لیے اس کی توسیع ضروری ہے ۔ چناں چہ شیخ محمد امین انصاری گولہ بازار میں اپنے گھرانے کی ایک وسیع اراضی کی نشان دہی کی ۔اس طرح شیخ صاحب کے گھرانے کی موقوفہ زمین پر دارالعلوم اہل سنت اشرفیہ مصباح العلوم کا قیام عمل میں آیا اور میاں بابا یعنی حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ نے چاندی کی کرنی سے اس کی نیورکھی اور کہا کہ فقیر نے اپنی کرنی تو کر لی اب تم لوگ اپنی کرنی کر کے دکھاؤ‘‘پھر اہل قصبہ نے اپنے پیر طریقت کی ”کرنی “ کی لاج رکھتے ہوئے اشرفیہ کی تعمیر میں دامے درمے قدمے سخنے ایساحصہ لیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔ 

شرر مصباحی صاحب کے اس اقتباس سے دارالعلوم اشرفیہ کے قیام کا پورا منظر سامنے آجاتا ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حضرت اشرفی میاں دینی امور میں حصہ داری کے لیے اپنے مریدوں کو کس طرح ابھارتے تھے ۔ اس کے علاوہ جب بھی دین اور سواد اعظم اہل سنت کو ضرورت پڑی تو حضرت اشرفی میاں پیش پیش رہے ۔ یہاں تک کہ انسداد شدھی تحریک میں بھی آپ کا بڑا اہم کردار ہے ۔

 ۱۳۵۳ھ سے اخیر عمر تک آپ (حضرت اشرفی میاں ) نے دار العلوم اشرفیہ کی سرپرستی فرمائی ۔ اس ادارہ کی تمام خدمات آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ۔ 


حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی عقیدت اشرفی میاں علیہ الرحمہ سے:
دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف کے زمانہ طالب علمی میں حضرت حافظ ملت ، حضور شیخ المشائخ اشرفی میاں قبلہ کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ معمر یہ میں بیت ہوگئے تھے ۔ اس سلسلہ مقدسہ میں سرکار غوث اعظم رضی اللہ عنہ تک صرف چار واسطے ہیں۔


جب حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں صدر المدرسین کی حیثیت سے تشریف لاۓ تو قریب قریب ہر سال حضور اشرفی میاں دارالعلوم میں تشریف لایا کرتے تھے ۔ ایک بار جب آپ کی آمد ہوئی تو آپ نے حافظ ملت علیہ الرحمہ کو خلافت دینا چاہی لیکن آپ نے اپنی منکسر المزاجی کی وجہ سے عرض کی کہ حضور مجھ میں تو کچھ صلاحیت نہیں ، میں خلافت کیسے لوں ؟ جوابا حضرت شیخ المشائخ نے فرمایا: ’داد حق را قابلیت شرط نیست ‘‘ اور خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا ۔

حضرت حافظ ملت ہر سال جامع مسجد راجا مبارک شاہ مبارک پور میں ١١ رجب المرجب کو حضرت اشرفی میاں قبلہ کاعرس منعقد کیا کرتے تھے۔

حضرت اشرفی میاں مجدد اسلام امام احمد رضا کی نظر میں : حضرت شیخ المشائخ اشرفی میاں قدس سرہ العزیز اور مجدد اسلام اعلی حضرت امام احمدرضا بریلوی نور اللہ مرقدہ کے مابین بہت ہی عقیدت و محبت تھی ۔ حضرت اشرفی میاں قبلہ کے صاحب زادے حضرت مولانا سید احمد اشرف علیہ الرحمہ کو امام احمد رضا قدس سره سے خلافت و اجازت حاصل تھی نیز آپ کے نواسے حضرت محدث اعظم ہند مولانا سید محمد میاں کچھوچھوی رحمہ اللہ کو امام احمد رضا سے تلمذ اور خلافت و اجازت کا شرف بھی حاصل تھا۔

ایک بار حضرت شیخ المشائخ محبوب الہی حضرت نظام الدین اولیا دہلوی رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک سے فاتحہ پڑھ کر نکل رہے تھے اور حضرت امام احمد رضا قدس سرہ بغرض فاتحہ جارہے تھے کہ امام احمد رضا کی نظر حضرت شیخ المشائخ قبلہ اشرفی میاں پر پڑی تو دیکھا کہ بالکل ہم شکل محبوب الہی تھے اس وقت برجستہ یہ شعر کہا: 

اشرفی اے رخت آئینہ حسن خوباں اے نظر کر دہ و پروردۂ سہ محبوباں

اس شعر میں سہ محبوباں سے مراد (۱) حضرت محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا دہلوی (۲) حضرت محبوب یزدانی مخدوم اشرف سمنانی (۳) محبوب سبحانی حضرت سیدنا غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہم ہیں ۔ 

ایک بار بریلی شریف جنکشن سے گزرتے ہوۓ حضرت قبلہ اشرفی میاں ٹرین ہی میں با ادب کھڑے ہو گئے ،لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا: نائب رسول ، قطب الارشاد جب اپنی مسند پر میرے احترام میں کھڑا ہوا تو فرزند رسول اس نائب رسول کے ادب میں کیوں نہ کھڑا ہو۔ 

حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ اکثر و بیشتر اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے، دونوں ایک دوسرے کی دست بوسی فرماتے ، اعلی حضرت قدس سرہ جس مسند پر تشریف فرما ہوتے تھے اس پر کسی کو نہیں بیٹھاتے تھے ، لیکن جب حضور اشرفی میاں علیہ الرحمہ ،،اعلی حضرت قدس سرہ سے ملنے تشریف لاتے تو اعلی حضرت ان کو اپنی مسند پر بیٹھاتے۔

اعلی حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ اپنے جمیع مریدان اور محبان خاندان اشرفیہ کو نصیحت فرماتے ہوئےکہتے ہیں:

"فرقی گاندھویہ کی رفاقت اوران کا ساتھ دینا جائز نہیں اور مولانا احمد رضاخاں صاحب عالم اہل سنت کے فتوؤں پر عمل کرناواجب ہے ۔ کافروں کا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں۔ مولانا بریلوی اور اس فقیر کا مسلک ایک ہے ان کے فتوے پر میں اور میرے مریدین عمل کرتے ہیں" 

مولانا محمد حسن علی رضوی میلسی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:

سیدنا علی حسین اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ نے اپنے مریدین و متوسلین کو بوقت وصال فرمایا: ”میرا مسلک اصول و فروعات میں وہی ہے جو حضور پور نور اعلی حضرت مولانا محمد احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا ہے میرے عقیدہ پرمضبوطی سے قائم رہنے کے لیے اعلیٰ حضرت کی کتابوں پر پوری طرح عمل کرو “۔

حضور اشرفی میاں کچھوچھوی علیہ الرحمہ کو اعلی حضرت بریلوی سے بہت گہرے مراسم تھے ، دونوں آپس میں شیر شکر تھے، ایک دوسرے کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔

وفات: ١١/ رجب المرجب ۱۳۵۵ھ کو ہزاروں حاضرین آپ کے ساتھ ذکر خیر میں شریک تھے کہ آپ نے کلمہ طیبہ کا وردکرتے ہوۓ ٩٠ سال کی عمر میں واصل بحق ہو گئے ۔ مزار مبارک حضرت مخدوم سمنانی علیہ الرحمہ کے روضہ پاک کے قریب ایک چبوترے پر واقع ہے.

Thought of Peace

Post a Comment

0 Comments