غیر مسلموں سے مردار کی بیع کرنا کیساہے, حرام مال کی تجارت کرنا کیسا ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتےہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں "نسیم قریشی"بکرے بکریوں کی تجارت کرتے ہیں یہ ایک شہر سے دوسرے شہر جانوروں کو لے جانے میں کچھ جانور مر جاتے ہیں تو کیاان مرے ہوئے جانوروں کو کسی غیر مسلم کے ہاتھوں بیچ سکتے ہیں اور اس رقم کو اپنی ضروریات میں استعمال کرسکتے ہیں؟شریعت کی روشنی میں جو حکم ہو بیان فرما دیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔ المستفتی: محمد نسیم قریشی۔ سریاواں بھدوہی یوپی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ صورت مسئولہ میں مردار کو غیر مسلم کے ہاتھوں بیچنا جائز ہے جب کہ یہ بیع دھوکا دے کر نہ ہو اور اس رقم کو اپنی ضروریات میں بھی استعمال کر سکتے ہیں. 

ردالمحتار میں ہے: واذا دخل المسلم دار الحرب بأمان فلا بأس س بأن يأخذ منهم أموالهم بطيب أنفسهم بأي وجه كان لأنه إنما أخذ المباح على وجه عرى عن الغدر فيكون ذلك طيباً له و الأسير والمستأمن سواء لو باعهم درهما بدره‍مين أو باعه‍م بدراهم أو أخذ مالا منهم بطريق القمار فذلك كله طيب له"(كتاب البيوع. باب الربا. ج:٧. ص:٤٢٣. ط: زكريا بک ڈپو)

غیر مسلموں سے مردار کی بیع کرنا کیساہے, حرام مال کی تجارت کرنا کسیا ہے
غیر مسلموں سے مردار کی بیع کرنا کیساہے, حرام مال کی تجارت کرنا کسیا ہے

بہار شریعت میں ہے:" عقد فاسد کے ذریعہ سے کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنون نہیں یعنی جو مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر حربی کافر کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگرشرط یہ ہےکہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو مثلاً ایک روپیہ کے بدلےمیں دو روپئے خریدے یااس کے ہاتھ ہاتھ مردار کو بیچ ڈالاکہ اس طریقےسےمسلمان کا روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور کافر سے حاصل کرنا جائز ہے"۔ (سود کا بیان۔ ج:٢۔ ح:١١۔ ص:٧٧٥۔ ط:مکتبۃ المدینہ) والله تعالى أعلم

كتبه. بلال احمدعلائي مصباحي مالده

دار القضاء بمركز تربية الإفتاء اوجه‍ا گنج بستی

١٣/رجب المرجب ١٤٤٣ه‍

الجواب صحيح والله تعالى أعلم

ازہار احمد مصباحی ازہری

خادم مرکز تربیت افتا اوجھا گنج بستی

١٣/رجب المرجب ١٤٤٣ھ

Post a Comment

0 Comments