نام: محمد امجد علی کنیت:ابوالعلا لقب:صدر الشریعہ ، بدر الطریقہ اور فقیہ اسلام
ولادت با سعادت : آپ ۱۲۹۶ھ مطابق ۱۸۷۸ء قصبہ گھوسی ،ضلع اعظم گڑھ (موجودہ ضلع مئو، یوپی )، محلہ کریم الدین پور میں پیدا ہوۓ ۔
تعلیم و تربیت: آپ نے اپنے جد امجد بعدہ اپنے برادر اکبر حضرت مولانا صدیق رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے علوم و فنون کی ابتدائی کتابیں پڑھیں ، پھر استاذ الاساتذہ حضرت مولانا ہدایت اللہ خاں رامپوری ثم جونپوری علیہ الرحمہ (متوفی: ۱۳۴۶ھ/۱۹۰۸ء) سے اکتساب فیض کے لیے مدرسہ حنفیہ جونپور میں داخل ہوۓ ۔) آپ حصول علم میں منہمک ہو گئے۔ آپ کی اعلی ذہانت و فطانت ، دقیقہ سنجی ، نکتہ رسی بیدار مغزی سے حضرت شیخ رحمہ اللہ بہت متاثر ہوئے اور اپنا منظور نظر قابل فخر شاگرد بنالیا اور یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ایک شاگردملا اور وہ بھی بڑھاپے میں “۔
علوم و فنون کی تکمیل کے بعد شیخ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی قدس سرہ (۱۳۳٤ھ ، ۱۹۱٦ء ) کی خدمت میں مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت میں حاضر ہوکر درس حدیث لیا اور سند فراغت حاصل کی ۔ ( سند فراغت کے بعد ایک سال تک پٹنہ میں ’’مطب" کرتے رہے ۔
بریلی شریف میں آمد: اسی اثنا میں اعلی حضرت امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کو دارالعلوم منظر اسلام کے لیے ایک مدرس کی ضرورت پیش آئی ، استاذ گرامی حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی کے ارشاد پر مطب چھوڑ کر آپ بریلی شریف چلے گئے ۔ آپ نے ابتدا میں منظر اسلام میں تدریس کا فریضہ انجام دیا، اس کے بعد مطبع اہل سنت کا انتظام ، جماعت رضاۓ مصطفی کے شعبہ علمی کی صدارت کے فرائض نیز افتا کی مصروفیات علاحدہ.چناں چہ آپ کی مصروفیات حیرت انگیز حد تک بڑھی ہوئی تھیں ، تدریس ، فتوی نویسی ، پریس کی نگرانی اور پروف ریڈنگ وغیرہ سارے امور تن تنہا خلوص وللہیت کے ساتھ انجام دیتے تھے ؛ اس لیے بعض حضرات کہا کرتے تھے کہ:مولانا امجد علی تو کام کی مشین ہیں‘‘
آپ کے روزانہ کام کا جدول کچھ اس طرح تھا، آپ بعد نماز فجر ضروری وظائف و تلاوت قرآن کے بعد گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پریس کا کام انجام دیتے پھر فورا مدرسہ جاکر تدریس فرماتے ، دو پہر کے کھانے کے بعد مستقلا کچھ دیر تک پھر پریس کا کام انجام دیتے ، نماز ظہر کے بعد عصر تک پھر مدرسہ میں تعلیم دیتے ۔ بعد نماز عصر، مغرب تک اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت عالیہ میں نشست فرماتے ۔ بعد مغرب عشا تک اور عشا سے بارہ بجے تک اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں فتوی نویسی کا کام انجام دیتے ، اس کے بعد گھر واپسی ہوتی اور کچھ تحریری کام کر کے تقریبا دو بجے شب میں آرام فرماتے ، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے آخر زمانہ حیات تک یعنی تقریبا دس برس تک روز مرہ یہی معمول رہا۔ آپ کی اس محنت شاقہ پر اس دور کے اکابر علما حیران تھے ۔
شان فقاہت کا اعتراف: آپ فتاوی لکھ کر اسے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کرتے ، اعلی حضرت علیہ الرحمہ آپ کے فتاوی پر حد درجہ اعتماد فرماتے تھے ، ایک دفعہ ارشاد فرمایا: ’' آپ یہاں کے موجودین میں تفقہ جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحب میں زیادہ پائیےگا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ استفتاء سنایا کرتے ہیں اور جو میں جواب دیتا ہوں لکھتے ہیں ، طبیعت اخاذ ہے طرز سے واقفیت ہو چلی ہے“
امام احمد رضا رحمہ اللہ کے اس ارشاد کے پیش نظر حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ نے آپ کو خاتم الفقہا لکھا ہے۔
بیعت و خلافت: بریلی شریف میں دوران درس و تدریس ہی آپ سیدی اعلی حضرت بی علیہ الرحمہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور جلد ہی خلافت و اجازت سے نوازے گئے ، الاستمداد میں اعلی حضرت نے اپنے مشاہیر خلفا کا ذکر فرمایے، اس میں حضور صدر الشریعہ کی مدح اس طرح کی ہے: ع
میرا امجد مجد کا پکا اس سے بہت کچیاتے یہ ہیں. (حیات حافظ ملت)
آپ تقریبا ۱۸ برس تک شیخ کامل کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے رہے ۔
صدر الشریعہ کا خطاب: چوں کہ جملہ علوم وفنون پر آپ کو کامل مہارت تھی اور بالخصوص فقہ میں یکتاۓ روزگار تھے ، اس لیے امام اہل سنت نے آپ کو صدر الشریعہ ‘‘ کا خطاب عطا کیا، انہیں فضیلت و خصوصیت کی بنا پراعلی حضرت نے اپنی نماز جنازہ کے متعلق وصیت کی تھی فرمایا: غسل وغیرہ سب مطابق سنت ہو ، حامد رضاخاں وہ دعائیں کہ فتاوی میں لکھی ہیں خوب از برکر لیں تو وہ نماز پڑھائیں ورنہ مولوی امجد علی‘‘۔
امام اہل سنت نے آپ کو قاضی شرع منتخب فرمایا اور حضور مفتی اعظم ہند اور حضرت علامہ مفتی برہان الحق رحمها الله کو مفتی شرع کی حیثیت سے مقرر فرمایا.
حج و زیارت اور وفات: آپ کو ۱۳۳۷ھ میں پہلی بار حج و زیارت کی سعادت حاصل ہو چکی تھی ٫۲۰ شوال ۱۳٦٧ھ کو جب حضور مفتی اعظم رحمہ اللہ حج کے لئے روانہ ہونے لگے تو آپ کا دل مچل اٹھا، یہاں تک کہ آپ بھی حج کےلئے روانہ ہوۓ ، ممبئی پہنچنے کے بعد کچھ تکلیف محسوس فرمائی ، ڈاکٹر کو بلایا گیا ، ڈاکٹر نے معائنہ کر کے بتایا کہ نمونیہ کا عارضہ ہے ، تین دن کے بعد حالت ابتر ہو گئی ، نماز عشا کے بعد ہاتھ پاؤں سرد ہونے لگے ، احباب نے تلاوت کلام پاک شروع کردی ، آپ نے نیت باندھنے کے لئے ہاتھ بلند کیے اور نیت کے بعد کچھ پڑھنا شروع کیا ، اس وقت ایک ہچکی آئی اور علم وفضل کا یہ آفتاب و ماہتاب ، عازم حج و زیارت اپنی منزل عشق کو پہنچ گیا۔ انا لله وانا اليه راجعون.
یوں تو آپ کے کار نامے بہت ہیں جنہیں اس مختصر سے مضمون میں شمار نہیں کرایا جاسکتا مگر دین متین کے لیے آپ کی بے لوث خدمات جلیلہ کی بنیاد پر لوگوں کے دلوں میں آپ کا مبارک نام درخشندہ و تابندہ ہے ۔ مذہب وملت کے لیے آپ کی دو عظیم کاوشیں ہیں جن پر رہتی دنیا تک فخر کیا جاتا رہے گا اور آپ کی روح کو تشکر وامتنان کا خراج پیش کیا جاتا رہے گا۔ آپ کی خدمات جلیلہ کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے:
جامعہ اشرفیہ کے قیام کی تعمیر و ترقی میں آپ کا بنیادی کردار :
دارالعلوم اہل سنت مصباح العلوم کے وجود اور اس کی تعمیر و ترقی میں آپ کی خاص توجہ رہی ، آپ کی کدو کاوش اور دعائیں اس کے ساتھ رہیں ۔ چناں چہ اس کے میر کارواں حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کو مبارک پور کے لئے آپ ہی نےروانہ کیا تھا چناں چہ آپ خود فرماتے ہیں:
’’شوال ۱۳۵۲ھ میں حضرت صدر الشریعہ نے خط بھیج کر مجھے وطن سے بریلی شریف بلایا، خط میں کوئی تفصیل نہیں تھی ، وہاں پہنچا تو فرمانے لگے میراضلع بالکل خراب ہو گیا ہے ، دیوبندیت بڑھ رہی ہے ؛ اس لیے میں آپ کو دین کی خدمت کے لئے بھیج رہا ہوں ، میں نے عرض کیا حضور ! میں ملازمت نہیں کرنا چاہتا ، فرمایا: میں نے آپ سے ملازمت کے لیے کب کہا؟ میں تو خدمت کے لئے کہ رہا ہوں،آپ ملازمت سمجھ کر جائیے بھی نہیں ، میں چپ ہو گیا تو فرمانے لگے : میں آپ کو دین کی خدمت کے لیے مبارک پور بھیجتا ہوں جائیے! میں چلا آیا‘‘۔
چناں چہ مدرسہ مصباح العلوم کا سنگ بنیاد رکھا گیا، حضرت حافظ ملت علیہ الرحمہ کی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے یہ علمی باغ لہلہانے لگا اور جب بھی موسم خزاں نے اس کی طرف رخ کیا تو حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اس کی شگفتگی کی بحالی کی طرف توجہ فرمائی ۔ ایک بار کا ذکر ہے کہ استاذ الاساتذہ حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ کسی بات پر ناراض ہوکر مبارک پور سے چلے گئے اور کپڑے کی تجارت شروع کر دی ۔ حضرت صدر الشریعہ کو جب اطلاع ہوئی تو افسوس کا اظہار فرمایا ، حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کسی دوسرے شاگرد کو ان کی جگہ بٹھا دیتے مگر آپ نے اپنی نگاہ عارفانہ سے معلوم کر لیا تھا کہ اس کے متحمل وہی ہیں، چناں چہ آپ ان کے وطن تشریف لے گئے اور حضرت حافظ عبدالرؤف علیہ الرحمہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’حافظ جی ! میں نے آپ کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ اگر آپ کو کپڑے کی تجارت ہی کرنی تھی تو آپ نے اپنا قیمتی وقت حصول علم میں کیوں صرف کیا اور مسند تدریس کو زینت بخشی اور ماشاء اللہ آپ نے حق ادا کر دیا ، اب آخری وقت میں کیا تجارت شروع کر دی ، جامعہ اشرفیہ کے در و دیوار آپ کو آواز دے رہے ہیں میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ اسی جگہ مبارک پور تشریف لے جائیں ، آپ کی موجودگی میں اس جگہ کو کوئی دوسرا شخص پر نہیں کر سکتا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ہوگی“۔
0 Comments