باسمہ اللہ الرحمٰن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل ذیل کے بارے میں ۔۔
(۱) سودی لین دین کا کاروبار کرنا (۲) جواکھیلنا،تاش پتہ کھیلنا،گیم کھیلنا ہارجیت کی شرط کے ساتھ اور اس کے علاوہ صرف ٹائم پاس کی نیت سے کھیلنے کا حکم (۳) لاٹری ٹکٹ بیچنے اور خریدنے کا کاروبار کرنا (۴) شراب نوشی و شراب کا کاروبار کرنا اور شراب کی دوکان میں نوکری کرنا (۵) بیئربار اور نائٹ کلبوں میں ناچنے گانے والے لڑکیوں کو بذریعۂ موٹر کار ،ان کی رہائش گاہوں سے بیئربار وکلبوں میں لیجانے و لانے والا کام کرنا اور ان لڑکیوں کو رہنے کیلئے مکان کرائے پر دینا ،ان جملہ افعال کا از روئے شرع احکام کیا ہیں۔؟
حامدا ومصلیا
الجواب بعون الملک العزیز الوہاب
استفتاء میں مذکور سوالوں کے جوابات ترتیب وار درج ذیل ہیں۔۔۔
(۱): سود لینا دینا ، سودی کاروبار کرنا،سودی کاروبار کرنے والی دوکانوں اورکمپنیوں میں ملازمت کرنا ،نیز سودی کاروبار کی دیکھ ریکھ کرنا اور ضرورت کے وقت سودی تجارت میں گواہی دینا یہ سب ناجائز وحرام ہیں۔
(۲):جوا اور تاش پتہ کھیلنا بنص قطعی حرام ہے،جب کہ ہارجیت کی شرط کے ساتھ ہو ورنہ مکرہ تحریمی ہے۔ اور گیم جیسے لوڈو،کیرم بورڈ وغیرہ چونکہ شطرنج کی طرح لغویات ہیں لہٰذا ان سب کا حکم یکساں ہوگا۔شطرنج سے متعلق علمائے احناف کا قول نہایت واضح ہے کہ اگر ہار جیت کے طور پر جوے کی شکل میں کھیلا جائے تو سخت حرام ہے۔اور اگر صرف تفریح و وقت گزاری کیلئے کھیلا جائے تو لغویات و بے مقصد اور تضیع اوقات کی وجہ سے ناجائز ہے۔اور اگر گیم فرائض و واجبات میں خلل ڈالے تو مکروہ تحریمی ہے۔یونہی گیم جیسے لوڈو ،کیرم بورڈ وغیرہ ہارجیت کی شرط کے ساتھ جوے کے طور پر کھیلنا سخت حرام ہے ۔اور بطور تفریح کھیلنا جو فرائض و واجبات میں مخل ہو مکروہ تحریمی ہے۔اور اگر کبھی کبھار صرف ذہنی ورزش اور تفریح کی نیت سے کھیلے اور کھیلے جانے والے گیم میں کسی بھی قسم کے غیر شرعی امورنہ ہوں اور ترک فرائض و وجبات کا سبب بھی نہ ہوتو ائمۂ احناف کے نزدیک اس کا حکم مختلف فیہ ہے اس لئے اس سے بھی اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔
(۳):لاٹری کھیلنا حرام ہے۔لاٹری ٹکٹ بیچنے اور خریدنے کا کاروبار کرنابھی حرام ہے۔کیونکہ حرام امور کے ممدومددگار،اسباب وذرائع بھی حرام ہیں ۔
(۴):شراب نوشی بنص قطعی حرام ہے خواہ شراب کا ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہو۔شراب کی دوکان میں نوکری کرنا یا شراب کا کاروبار کرنا ،شراب جیسی حرام شئی کو فروغ دینا ہے۔اور اوپر بیان ہوچکا ہے کہ ایسے تمام امور جو کسی حرام چیز کا ذریعہ بنے وہ خود حرام ہوجاتے ہیں ،لہٰذا کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں ہے کہ شراب کی تجارت کرے یا شراب بنانے والی کمپنیوں میں ملازمت کرے بلکہ اس کو فوری طور پر ایسا کاروبار اور ملازمت چھوڑکر توبہ کرنا لازم ہے۔
(۵): اس کا جواب وہی ہے جو سوال نمر ۴ اور ۵ کے جواب میں مذکور ہے۔کیونکہ بیئرباراور نائٹ کلبوں میں ناچنے گانے والی بے حیا لڑکیا ں خواہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں بے حیائی کو عام کرتی ہیں اور زنا کی طرف نوجوانوں کو دعوت دیتی ہیں اوریہ مذہب اسلام میں سخت حرام ہے۔لہٰذا ایسی بے شرم و بدکردار دوشیزاؤں سے نفرت و کنارہ کشی کے بجائے،انہیں لانے،لیجانے والا کام کرنا اور رہائش کیلئے مکان کرایہ پر دینا ،اس کار حرام میں ان کا تعاون کرنا ہے۔اور حرام کام میں تعاون کرنا حرام ہے۔واللہ اعلم بالصواب
حوالہ جات:
احل اﷲ البیع و حرم الربوٰ۔(البقرۃ۲۷۵)
یمحق اﷲ الربوٰ ویربی الصدقات(البقرۃ۲۷۶)
عن جابر قال: لعن رسول اﷲ ﷺ آکل الربوٰ ومؤکلہ و کاتبہ وشاہدیہ وقال ھم سواء۔ (صحیح مسلم)
یایھاالذین آمنواانما الخمر المیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون۔(المائدہ ۹۰)
وتعانوا علی البر واتقویٰ ولا تعانواعلی الاثم والعدوان واتقواﷲ ان اﷲشدید العقاب۔(المائدہ ۲)
ویکرہ اللعب بالشطرنج و النزد والاربعۃعشر وکل لھو لانہ ان قامر بھا فالمیسر حرام بالنص وھو اسم لکل قمار و ان لم یقامر بھا فھو عبث و لھوو قال علیہ السلام لھو المؤمن باطل الاثلاث تادیبہ لفرسہ و مناضلتہ عن قوسہ و ملاعبتہ مع اہلہ۔(ھدایہ۔کتاب الکراہیہ)
وانما کرہ لان من اشتغل بہ ذھب عناؤہ الدنیوی و جاؤہ عناء الاخروی فھو حرام و کبیرۃ عندنا ، و فی اباحتہ اعانۃ الشیطان علی الاسلام و المسلمین کما فی الکافی قہستانی۔( ردالمحتار۔کتاب الحضر والاباحۃ)
کتبہ۔۔محمدچاند علی اشرفی قمرؔجامعی
استاذومفتی:مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ(بنگال)
۵/رجب المرجب۱۴۴۳ھ
الجواب صحیح المجیب مصیب
مفتی عبدالودود اشرفی مصباحی
شیخ الجامعہ:مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف ،مالدہ ، بنگال
0 Comments