حروف مقطعات کے حقیقی معانی کیا ہیں، ان حروف کے معانی اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں میں کس کس کو معلوم ہیں

حروف مقطعات کیا ہیں:

قرآن ایک ایسی کتاب ہے جسے پوری خلق خدا کے واسطے تعلیم و  ہدایت کا سراپا پیکر بناکر نازل کیا گیا ہے۔اس کا ایک ایک حرف جن و انس کی رہنمائی اور انہیں ابدی کامرانی سے ہمکنار کرنے کا ضامن ہے۔ اس حقیقت ساطعہ کا اعلان خود قرآن کریم میں خالق کائنات نے کیا ہے،ارشاد الہی ہے"و مافرطنا فی الکتاب من شئ"ترجمہ: اور ہم نے اس کتاب (قرآن) میں کوئی کمی چھوڑ نہیں رکھی۔

یعنی اس میں تمام علوم و معارف جمع فرما کر اہلیان اسلام کو دیگر آسمانی کتابوں اور دنیوی لٹریچروں سے بے نیاز کر دیا۔ یہ حقیقت اپنی جگہ سو فیصد اٹوٹ اور مستحکم ہے۔مگر اس عرفان و معرفت کے بحر بیکراں کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کرنا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں, بلکہ حق تو یہ ہے کہ اسی قرآن میں کچھ ایسے کلمات بھی ہیں جن سے بڑے بڑے علمائے تفسیر و حدیث تک کو آشنائی حاصل نہیں ہے ۔ وہ مبارک کلمات حروف مقطعات یا حروف ہجا کے نام سے موسوم ہیں جو سورتوں کے آغاز میں آتے ہیں۔انہیں "مقطعات" اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ کہ یہ الگ الگ پڑھے بھی جاتے ہیں اور لکھنے میں بھی مضموم نہیں ہوتے۔

حروف مقطعات کے اقسام:

پورے قرآن میں آنے والے حروف مقطعات چودہ ہیں۔جو ان حروف تہجی پر مشتمل ہیں: ا،ل،ص،ر،ن،م،ک،ہ،ی،ع،ط،س،ح،ق۔

قرآن کریم میں ان کا استعمال پانچ طریقوں سے ہوا ہے۔جو اختصارا کچھ یوں ہیں۔: (١)احادی یعنی ایک حرفی،یہ تین ہیں:ص، ق، ن

(٢) ثنائی یعنی دو حرفی،یہ چار ہیں:طه، طس، یس، حم

(٣) ثلاثی یعنی تین حرفی،یہ تین ہیں:الم، الر، طسم۔

(٤) رباعی یعنی چار حرفی،یہ دو ہیں:المص، المر

(٥)خماسی یعنی پانچ حرفی،یہ بھی دو ہیں:کھیعص، حم عسق۔

حروف مقطعات کی حامل سورتیں:

قرآن عظیم کی ١١٤ سورتوں میں سے ٢٩ سورتوں کی ابتدا میں حروف مقطعات کا استعمال ہوا ہے۔ان حروف اور ان کی سورتوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:( ١) سورۂ بقرہ:الم،(٢)سورۂ آل عمران:الم،(٣)سورۂ روم:الم،(٤)سورۂ لقمان:الم،(٥)سورۂ اعراف:المص،(٦)سورۂ سجدہ:الم،(٧)سورۂ یونس:الر،(٨) سورۂ یس:یس،(٩) سورۂ ہود:الر،(١٠) سورۂ ص:ص،(١١)سورۂ یوسف:الر،(١٢) سورۂ غافر یا مؤمنوں:حم،(١٣) سورۂ رعد:المر،(١٤) سورۂ حم السجدۃ یا فصلت:حم،(١٥) سورۂ ابراہیم:الر،(١٦) سورۂ شوری:حم عسق،(١٧) سورۂ حجر:الر،(١٨) سورۂ زخرف:حم،(١٩) سورۂ مریم:کھیعص،(٢٠) سورۂ دخان:حم،(٢١) سورۂ طه:طه،(٢٢) سورۂ جاثیۃ:حم،(٢٣) سورۂ شعراء:طسم،(٢٤) سورۂ احقاف:حم،(٢٥) سورۂ نمل:طس،(٢٦) سورۂ ق:ق،(٢٧) سورۂ قصص:طسم،(٢٨) سورۂ قلم:ن،(٢٩) سورۂ عنکبوت:الم۔

واضح رہے مذکورہ سورتوں میں چار سورتیں ایسی ہیں جن کے نام ان میں موجود حروف مقطعات پر ہیں: (١) سورۂ یس،(٢) سورۂ ق،(٣)سورۂ طه،(٤) سورۂ ص۔


حروف مقطعات کے متعلق مفسرین کے آرا:

ان اوائل سور کے بارے میں علمائے تفسیر نے خوب موشگافیاں کی ہیں۔ایک قول یہ ہے الم اور دیگر حروف ہجا قرآن کے مختلف اسما ہیں۔ اس کے قائل حضرت قتادہ،حضرت امام مجاہد اور حضرت جریح رضی اللہ عنھم ہیں۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ یہ صرف فواتح سور ہیں جن سے اللہ نے سورتوں کا افتتاح فرمایا ہے۔ یہ بھی چار روایتوں کے ذریعے امام مجاہد رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچتا ہے۔

تیسرا نظریہ یہ ہے کہ یہ حروف ان سورتوں کے اسما ہیں جن کے شروع میں یہ آئے ہیں۔ یہ روایت حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم کی طرف منسوب ہے۔

اور ایک چوتھی تاویل یہ ہے کہ یہ حروف اسمائے الہٰیہ سے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے قسم ارشاد فرمائی ہے۔ یہ روایت سید المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنھما سے منقول ہے۔

ان کے علاوہ اور بھی کئی اقوال ہیں جنہیں کتب تفاسیر میں دیکھا جا سکتا ہے۔(تلخیص از تفسیر طبری،الجزء الاول،از ص:٢٠٤,تا ٢٠٨،تحت تفسیر"الم")

حروف مقطعات کے حقیقی معانی کیا ہیں، ان حروف کے معانی اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں میں کس کس کو معلوم ہیں
حروف مقطعات کے حقیقی معانی کیا ہیں، ان حروف کے معانی اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں میں کس کس کو معلوم ہیں


حروف مقطعات سے متعلق قول اسلم:

یہ تاویلات جو اوپر بیان کی گئیں, محض ارباب تفسیر کی تحقیقات ہیں ورنہ ان حروف کا کوئی خاص معنی اپنے اعتبار سے متعین نہیں کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں سب سے قوی و سالم راہ وہی ہے جو امام شعبی اور ایک جماعت مفسرین نے اپنائی ہے۔وہ یہ ہے کہ ان حروف مقطعات کی درست تاویل اللہ ہی جانتا ہے۔ہم بس ان کی حقانیت پر ایمان رکھنے کے مکلف ہیں۔ دراصل یہ اللہ رب العزت کے اسرار و رموز ہیں جن کی حقیقت سے مخلوق عاجز ہیں۔ جیساکہ خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر کتاب کے کچھ اسرار ہوتے ہیں اور قرآن پاک میں اللہ کے اسرار اوائل سور ہیں۔(ملخصا از تفسیر بغوی،جلد اول،ص:٥٨،تحت تفسیر"الم"۔۔۔حاشیۂ جلالین شریف،تحت تفسیر"الم" حاشیہ نمبر:١٥)

یاد رہے کہ جن حضرات نے ان حروف کی تاویلیں بیان کی ہیں وہ بھی ان کی حقیقت اللہ کے علم کے سپرد کرتے ہیں۔


حروف مقطعات کا علم حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو ضروری طور پر حاصل ہے:

اس بات کو تو عقل تسلیم کرتی ہے کہ امت کو ان حروف کی حقیقت سے آگاہ نہیں کیا گیا اور ان پر صرف اس پر ایمان رکھنا واجب  ہے لیکن مہبط وحی سید الرسل حبیب رب اکبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کا علم عطا نہ کیا گیا ہو یہ بات عقل قبول نہیں کرتی ہے, کیونکہ جس ہستی پر نزول وحی ہو انہیں کو شئ منزل سے ناآشنائی ہو تو پھر وحی کا کوئی مقصود ہی نہیں رہ جاتا۔ لہذا مفسرین کے اس موقف کہ "یہ اوائل سور اسرار خداوندی ہیں" کی وضاحت حاصل کرنا ضروری ہے۔

تفسیر بیضاوی شریف میں علامہ بیضاوی علیہ الرحمۃ اس موقف کو تحریر فرماکر اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں"و لعلھم أرادوا انھا أسرار بین اللہ و رسولہ و رموز لم یقصد بھا افہام غیرہ اذ یبعد الخطاب بما لا یفید(تفسیر بیضاوی،جلد اول،ص:٣٥,دار احیاء التراث العربی بیروت،تحت تفسیر"الم") ترجمہ: اور ممکن ہے کہ انہوں نے اس(کہ یہ حروف مقطعات اسرار الہی ہیں) سے مراد یہ لیا ہو کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایسے اسرار و رموز ہیں جنہیں دوسروں کو سمجھانا مقصود نہیں, کیونکہ (یعنی اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی حقیقت سے ناواقف ہوں تو) غیر مفید کلام سے خطاب ایک بعید امر ہے۔

اس عبارت کا لب لباب یہ ہے اکابرین امت کے ان حروف کو اسرار الہی قرار دینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم نہیں ہے بلکہ ضروری طور پر ان کے اس کلام سے مراد یہ ہوگا کہ ان حروف کا علم اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان سر بستہ راز ہیں۔ورنہ نبی کو ایسے کلمات سے خطاب جن کے معانی نبی کو بھی معلوم نہ ہو,ایک حقیقت سے بعید بات معلوم ہوتی ہے۔واللہ اعلم


بعض مقربین بارگاہ کو بھی حروف مقطعات کا علم حاصل ہے:

علامہ سید آلوسی رحمۃ اللہ علیہ امام شعبی رحمہ اللہ کے حوالے سے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف تفسیر روح المعانی میں رقمطراز ہیں"سر اللہ تعالیٰ فلا تطلبوہ فلا یعرفونه بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا الاولیاء الورثۃ فھم یعرفونه من تلک الحضرۃ و قد تنطق لھم الحروف عما فیہا کما کانت تنطق لمن سبح بکفہ الحصی و کلمه الضب و الظبی صلی اللہ علیہ وسلم کما صح ذلک من روایۃ اجدادنا اھل البیت رضی اللہ عنھم بل متی جنی العبد ثمرۃ شجرۃ قرب النوافل علمھا و غیرھا بعلم اللہ الذی لا یعزب عن علمه مثقال ذرۃ فی الارض و لا فی السماء (تفسیر روح المعانی،المجلد الاول،ص:١٠٣،دار الکتب العلمیہ بیروت۔لبنان،تحت تفسیر"الم") ترجمہ: یہ فواتح سور اللہ کے راز ہیں لہذا ان کی کھوج نہ لگاؤ۔۔۔۔۔پھر ان کی معرفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وارثین رسول اولیاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہی حاصل ہوسکتی ہے تو وہ اسی بارگاہ سے اس کا علم پاتے ہیں اور کبھی تو وہ حروف ہی انہیں ان کے معانی کا پتہ دے دیتے ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کف مبارک میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور گوہ اور ہرنی آپ سے ہم کلام ہوئے جیسا کہ ہمارے اجداد اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین سے صحیح روایت ہم تک پہنچی بلکہ جب بندہ قرب نوافل کے درخت سے پھل چنتا ہے تو وہ اللہ جس کے علم سے زمین و آسمان کا ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں ہے,  کی عطا سے ان (حروف مقطعات) کے اور دوسری چیزوں کے علم سے بہرہ مند ہوجاتا ہے۔

حضرت مفسر علام کے اس اقتباس سے پہلی بات تو یہ ثابت ہوئی کہ حروف مقطعات کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حتمی طور پر حاصل ہے۔

دوسرے یہ کہ وارثین نبی حضرات اولیائے کرام جو معرفت حق کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہیں اور قرب الٰہی کے ممتاز اور نمایاں مقام پر فائز ہیں,ان محتشم ہستیوں کو بھی حضور دانائے غیوب صاحب یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کے تصدق سے اللہ رب العزت ان حروف مقطعات کا علم مرحمت فرمادے تو یہ کوئی بعید نہیں۔ یہ حضرات ان حروف پر نگاہ ڈالتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے معانی ان کے دلوں میں القا فرما دیتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ ان مقبولان بارگاہ کے لئے یہ حروف ہی ان کے معانی کو واشگاف کر دیں کیونکہ جس طرح پروردگار عالم نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان گنت معجزات سے نوازا ہے, ٹھیک اسی طرح اس امت کے اولیاء کو بھی خوارق عادت کرامتوں سے شرف بخشا ہے۔

حاصل کلام:

بہرحال ان سارے اقتباسات کا حاصل یہ ہے کہ ان حروف مقطعات کا حقیقی علم اللہ ہی کو ہے اور اس کی عطا سے حضور رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان سے مکمل طور پر واقف ہیں,نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے چیدہ و مقبول بندوں کے لئے بھی ان کی حقیقت کے ابواب کھول دے تو یہ بھی کوئی امر مستحیل نہیں ہے۔کیونکہ بندہ مومن جب قرب خاص حاصل کر لیتا ہے اور درجۂ محبوبیت سے سرفراز ہوجاتا ہے تو اللہ اور بندے کے درمیان سے اسرار و رموز کے پردے ہٹالیے جاتے ہیں اور بارگاہ ایزدی سے اسے وہ علم حاصل ہو جاتا ہے جو عام بندوں کے تصورات سے بھی پرے ہوتا ہے۔

اس شعر کے ساتھ اس گفتگو کو ختم کیا جاتا ہے۔

بین المحبین سر لیس یفشیه

قول و لا قلم للخلق یحکیه

ترجمہ: محبوب و محب کے درمیان ایسا سر بستہ راز ہوتا ہے جسے نہ تو لفظ ظاہر کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قلم اسے سپرد قرطاس کر سکتا ہے۔


از محمد سرور عالم اشرفی، علائی،اتردیناج پور

پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی

Post a Comment

0 Comments