حیات مخدوم علاء الحق پنڈوی کے چند گوشے
سلسلہ عالیہ چشتیہ کی ایک قد آور شخصیت ،مرشد مخدوم سمناں،قدوۂ اصحاب تصوف اور مقدمۂ ارباب تعرف جنہوں نے کفر و شرک اور ضلالت و گمرہی کے گھٹا ٹوپ وادیوں میں ارشاد و تبلیغ کا دیپ جلا کر بے شمار گم گشتگان راہ حق کو صراط مستقیم کا مسافر بنایا, جن کی وجہ سے پنڈوہ شریف جیسے کفرستان اور سنسان و جنگلی علاقے میں ایمان و اسلام کی بہار آئی۔توحید کی آبیاری ہوئی۔جن کے مریدین و خلفا کے دم قدم سے پورے غیر منقسم بنگال میں کلمۂ حق کو سرفرازی حاصل ہوئی ۔جنہوں نے اس خطے پر اپنے مرشد کے لگائے ہوئے پودۂ چشتیت کو تناور اور بارآور درخت بنایا۔ذیل کے چند سطور میں انہیں کی حیات مبارکہ کے چند گوشے پر روشنی ڈالتے ہیں :
سن و جاۓ پیدائش اور خاندانی پس منظر :
آپ سن ۷۰١ ھ مطابق ١٣۰۲ لاہور کے ایک متدین و متمول ,اعلی اور معروف گھرانہ میں اپنی زیست کی آنکھیں کھولیں۔آپ کے والد پزرگوار ایک متبحر اور بڑے پایے کے عالم باعمل تھے,ان کی عزت و شہرت کے لیے یہی کیا کم تھا کہ وہ شاہی مسند وزارت پر بھی متمکن تھے۔یوں ہی خاندان کے دگر افراد بھی بادشاہی اعلی مناصب پر فائز تھے۔اس طرح آپ کے خاندان میں عزت و شہرت کے سارے اسباب جمع تھے جن کی وجہ سے انہیں پورے لاہور میں غیر معمولی مقام و مرتبہ حاصل تھا,ارباب حکومت و اقتدار سے لے کر اہل علم اور عوام و خواص تک, ہر ایک پر آپ کے خاندان کی علمی جلالت و منزلت اور سیاسی سطوت و عظمت کا دھاک بٹھاہوا تھا۔گویا آپ کا خاندان دینی و دنیوی اور روحانی و مادی جاہ و حشم کا حسین سنگم تھا۔
تعلیم/تبحر علمی:
آپ کی تعلیم و تربیت بھی پورے ناز و نعم اور شاہانہ ٹھاٹ باٹ کے ساتھ وطن مالوف کے علمی و روحانی فضا ہی میں ہوئی۔اور بہت کم مدت میں آپ کو علوم دینیہ متداولہ میں درک حاصل ہوگیا ۔دیکھتے ہی دیکھتےآپ علم و فضل میں یگانۂ روزگار ہوگئے۔آپ کی جلالت علمی کا طوطی بولنے لگا۔
آپ اپنے وقت کے ایک عالم ربانی تھے۔آپ عبقری,ہمہ جہت اور جامع الکمالات شخصیت کے مالک تھے۔معاصرین علما و فضلا پر آپ کے علمی درک و کمال کا دھونس اس طرح جما ہوا تھا کہ کوئی بھی آپ کا سامنا کرنے کی تاب نہیں لاتے۔ بلکہ اللہ تعالٰی آپ کی ذات حمیدہ صفات کو علم لدنی کی خلعت سے بھی نوازا تھا۔
آپ کے علمی جہاں کی وسعت و ہمہ گیریت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ خود اپنے معنوی فرزند خاص مخدوم اشرف قدس سرہ سے کبھی کبھی فرماتے تھے: "غرائب اسرار کے اثمار اور عجائب آثار کے انوار یعنی آیات قرآنیہ کے نکات اور فصوص و فتوحات کے حقائق مجھ سے حاصل کرو"
حضور شیخ مخدوم علاء الحق و الدین پنڈوی علیہ الرحمہ:حیات و خدمات |
فن حرب و ضرب:
اپنے والد گرامی کی طرح آپ بھی اونچا شاہی مقام پر براجمان تھے۔ آپ جنگ و جدال اور شمشیر زنی میں ماہر تھے,آپ جس فوج کا کمان سنبھالتے اس کی ظفریابی یقینی ہوتی تھی۔اس حیثیت سےآپ ایک بہادر اور دلیر انسان بھی تھے۔
علما کا امتحان اور سلب علم:
مخدوم العالم قدس سرہ کو اپنی اس علمی بلند پروازی کا بخوبی احساس تھا,اس پر آپ نازاں و فرحاں بھی تھے چنانچہ آپ پنڈوہ شریف آنے کے بعد اپنے یہاں آنے والے فقرا و علما کو طرح طرح سے جانچتے تھے,بسااوقات اپنے مخصوص حوض سے وضو کراتے تھے,کبھی کبھار کھولتا ہوا گرم پانی پیش کرتے تھے تو جو کامل ہوتا,آپ کی اس کسوٹی پر کھڑا اترتا فبہا ورنہ آنے والے کا متاع علم سلب ہوجاتا اور علوم و فنون سے آباد سینہ,آن واحد میں ویران ہو کر رہ جاتا۔
روانگیِ بنگال:
جیسا کہ سطور بالا سے واضح ہوا کہ آپ کے اور آپ کے خاندان کا غلغلہ مقامی و علاقائی حدود کو پھلانگ کر دور دور تک پہنچ چکا تھا۔سلاطین زمانہ آپ کے گرویدہ ہوچکے تھے اسی وجہ سے آپ مملکت بنگال کی طرف سے مدعو کئے گئے اور شاہی دعوت پر آپ اور آپ کے خاندان بنگال قدم رنجہ ہوۓ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی خاک کو قدم ناز کی برکتوں سے سرفراز ہونے کا موقع عنایت فرمایا۔
بیعت و خلافت اور خدمت مرشد:
خداۓ لم یزل کے یہاں حضرت مخدوم العالم کی مقبولیت اور رحمت الہی کی یاوری دیکھیے کہ عطاۓ محبوب الہی اخی سراج آئینۂ ہند قدس سرہ آپ کو رشک شمس و قمر بنانے کے لیے خود دہلی سے آپ کے پاس آگئے اور بیعت کرکے اپنے دامن کرم میں جگہ دی۔پھر کیا تھا کہ آپ کی زندگی میں یکسر انقلاب کی بہار آگئ۔آپ کے گلشن حیات سے ساری رعنائیاں و شادابیاں،رونقیں و سرمستیاں یک قلم رخصت ہوگئیں۔زہد و تقویٰ اور دنیا و مافیہا سے بےرغبتی کے لباس میں ملبوس ہوکر حیات جاویداں کی تلاش میں فقیرانہ و درویشانہ زندگی اختیار کر لی۔
آپ نے خود کو اپنے پیر و مرشد کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔ان کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا اور کل کائنات سمجھا یہاں تک کہ دوران سفر جو مہینوں کا ہوتا تھا, اپنے مرشد کے واسطے کھانا و پانی گرم کرنے کےلیے گرم پتیلہ, چولہا اور دگر سامان ضرورت اپنے سر پر لیے پاپیادہ چلتے جس کی وجہ سے سر کے بال گر گئے تھے۔صرف یہی نہیں بلکہ ایسی ایسی خدمات انجام دیتے,مشقتیں اٹھاتے کہ چشمہاے بینا دیکھ کر خیرہ ہوجاتیں پھر بھی آپ کی پیشانی پر بل نہیں آتا۔مرشد گرامی بھی کبھی نہیں روکتے کیونکہ ان کی نگاہیں آپ کے خورشید ولایت کو چمکتا دیکھ رہی تھیں اور یہ منصب عظیم قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔إن العطایا علی قدر البلایا۔
انعام مرشد اور منصب ولایت:
مسطورہ بالا عبارات سے یہ وا ہوچکا ہے کہ اپنے مرشد گرامی کے لیے آپ نے جو قربانیاں پیش کیں, آج کے زمانے میں وہ متصور نہیں۔مرشد نے بھی آپ کو انعام و اکرام سے نوازنے میں کوئی کمی نہ کی بلکہ آپ کو اپنی نگاہ بافیض سے مملکت روحانیت کا تاج ور اور سپہر ولایت کا نیر تاباں بنادیا۔چنانچہ آپ اپنے دور کے ابدال(اولیا کے اس گروہ کو کہتے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس نظام کائنات کو برقراراورہموار رکھتا ہے) تھے جبکہ بعض نے قطب(اس ولی کو کہتے ہیں,باطنی طور پر جس کے قبضہ و اقتدار میں اللہ تعالیٰ کسی شہر یا ملک کا نظام سپرد کردیتا ہے] بھی لکھا ہے۔
مریدین و خلفا:
بیعت و ارادت کا جام نوش فرمانے کے بعد چونکہ گوشہ گزیں اور خلوت نشیں ہوچکے تھے۔دنیاوی علائق و موانع سے کنارہ کش ہوچکے تھے,ہمہ وقت ذکر و فکر اور تسبیح و تہلیل کے بحر ناپیدا کنار میں غرقاب رہتے تھے۔اس لیے آپ بیعت و ارادت کرانے سے حد درجہ گریز کرتے تھے اور اپنے خدام کو منع کرتے تھے, پھر بھی کئ متلاشی حق توبہ و استغفار کے بہانے سے آپ کے حلقہ ارادت و خلافت میں داخل ہوئے بایں سبب مریدین و خلفا کی تعداد بہت کم ہے,ان کی بھی کوئی متعین تعداد کتب تاریخ میں نہیں ملتی ۔
تربیت مریدین اور شخصیت سازی:
حضور علاء الحق پنڈوی کو ذرے کو آفتاب اور کنکر کو تراش خراش کر کندن بنانا خوب آتا تھا۔اس کی دلیل کے لیے مخدوم اشرف جہانگیر قدس سرہ کی ذات حمیدہ صفات کافی و وافی ہے۔آپ نہ صرف اپنے ارادت مندوں کی نورانی و عرفانی تربیت فرماتے تھے, ان کے معمولات زندگی پر کڑی نظر رکھتے بلکہ انہیں ان کے لائق کوئی جسمانی کام بھی سپرد کرتے تھے۔جو جتنا قریب ہوتا اسے اتنا ہی مشقت آمیز خدمت دی جاتی سواے مخدوم اشرف جہانگیر علیہ الرحمۃ کے۔ اپنے مریدین کے عائلی اور معاشرتی مسائل و ضروریات کا بھی خاص خیال فرماتے تھے اور ان کے گھریلو اخراجات کے پیش نظر انہیں کوئی کام دیتے کہ جس کے ذریعے اپنے فیملی کا انتظام و انصرام کرسکیں ۔ان پر حد درجہ شفقت فرماتے۔
کشف و کرامات:
آپ مستجاب الدعوات بزرگ تھے, اللہ تعالٰی نے آپ کی زبان میں غضب کی تاثیر رکھی تھی, جو کہہ دیتے وہ ہو کر رہتا۔آپ کے کرامات و خوارق عادات کی ایک لمبی فہرست ہے. طوالت کے پیش نظر انہیں قلم انداز کیا جاتا ہے۔
سخاوت و فیاضی:
اگرچہ بیعت و ارادت کے بعد مملکت سے آپ کا رشتہ ناطہ ٹوٹ چکا تھا,مال و دولت ختم ہوچکے تھے لیکن خزینہ الہی کے دروازے کھل گئے تھے،آپ کی جود و عطا شباب کو پہنچ چکا تھا،ہر ایک کے لیے آپ کا باب سخاوت ہر ایک کے لیے کھلا رہتا،ضرورت مندوں کی جم گھٹ رہتی،علما و فضلا, صوفیا و عرفا اور دگر گداگران روحانیت کی ہما ہمی ہوتی۔ خانقاہ علائیہ میں ان سب کی ضیافت و مہمانی ہوتی تھی یہاں تک کہ جب آپ کی اس دریا دلی کی خبر بادشاہ تک پہنچی تو وہ نہ صر ف دنگ ہو کر رہ گیا بلکہ آپ کی اس خصلت کریمانہ کو سلطنت کے لئے خطرہ سمجھ کر آپ کو پنڈوہ سے سونار گاؤں جلاوطن کردیا۔مگر وہاں بھی آپ کا بحر جود و عطا پورے آب و تاب کے ساتھ جاری رہا۔ یہ دیکھ کر بادشاہ خوب حیران ہوا اور اپنے فیصلے پر پشیماں بھی۔ بالآخر بادشاہ نے بھی آپ کی روحانیت و خدا رسی کو تسلیم کرلیا اور جلاوطنی کا حکم منسوخ کردیا.آپ پھر پنڈوہ شریف قدم رنجہ ہوئے اور تادم حیات وہی رہے۔
وصال:
سن ۸۰۰ھ/۱۳۹۸ءکو آپ دار الفنا سے در البقا کی طرف کوچ کر گئے۔آپ کا مزار مبارک پنڈوہ شریف میں واقع ہے جو آج مسلمانان بہار و بنگال کا مرجع بنا ہوا ہے اور فیوض و برکات کے خیرات لٹا رہا ہے بالخصوص جنات و آشیب زدگان کے واسطے آپ کا در اکسیر ہے۔
قلمکار ✍️ : لعل بابو اشرفی علائی، اتر دیناج پور
پیشکش : محمد چاند علی اشرفی قمرجامعی
استاذ : مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ(بنگال)
نوٹ: اس تحریر کو کاپی کرنے کی اجازت نہیں ہے لہذا لنک شئر کریں اور ادارے کو دعاؤں سے نوازیں.
1 Comments