اسم گرامی: سیدمحمد مدنی
کنیت : ابوحمزہ، تخلص : اختر، القاب شیخ الاسلام، رئیس الحققین ۔
والد گرامی: حضور محدث اعظم ہند سید محمد اشرفی جیلانی قدس سرہ۔
خاندان و سلسلۂ نسب: حضرت سیدنا قدوۃ الکبری، سلطان الاولیا، محبوب یزدانی مخدوم سمناں سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کی ذات بابرکات سے منسوب خاندان اشرفیہ اور حضرت مخدوم پاک کے حقیقی بھانجے حضرت سیدنا مخدوم نور العین قدس سرہ العزیز کی نسل میں حضور شیخ الاسلام کی ولادت ہوئی۔ آپ کا سلسلۂ نسب ۳۶/ واسطوں سے حضور سیدنا غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی سے ہوتا ہوا باب العلم حیدر کرار حضرت سید ناعلی بن ابی طالب کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے جاملتا ہے ۔ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔
ولادت باسعادت: آپ کی ولادت مبارکہ کچھوچھہ مقدسہ میں شب یک شنبه یکم رجب المرجب ۱۳۵۷ھ مطابق۱۹۳۸ء میں ہوئی ۔
تعلیم و تربیت :ابتدائی تعلیم کا باضابطہ آغاز مکتب جامعہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف میں ہوا۔ عمر کی چودہ منزلیں طے کر لینے کے بعد والد محترم حضور محدث اعظم علیہ الرحمہ نے آپ کو اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ و مزین کرنے کے لیے اور پاکیزہ سیرت و تہذیب کے اسلحے سے لیس ہونے کی خاطر باغ فردوس دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور میں بتاریخ ۱۰/ شوال المکرم ۱۳۷۱ھ کو داخل کیا۔ آپ نے اس دینی و علمی احاطہ میں فارسی کی پہلی سے لے کر بخاری شریف تک کی کتابیں پڑھیں اور علوم مروجہ کی تکمیل کی ۔ اور علم و فن کی تمام شاخوں پر اپنا نشیمن بناکر موقع ومحل کی مناسبت سے نغمہ سنجی کرتے رہے ۔
زمانہ طالب علمی : مبارک پور میں حضرت شیخ الاسلام کے دس سال کا طویل عرصہ زیور علم سے آراستہ و مزین ہونے کی خاطر گزرا۔ دارالعلوم اشرفیہ کے قدیم اساتذہ واراکین گواہ ہیں کہ آپ نے تعلیم و تعلم کے سوا کسی بھی تحریک و تنظیم میں حصہ نہیں لیا ۔ وہ ہمیشہ لغویات اور لہو ولعب سے دور رہے اور آپ امام شافعی علیہ الرحمہ کے اس قول زریں ’’الوقت سيف فإن لم تقطعه قطعك “ پر سختی سے عمل پیرار ہے ۔ بلا ناغہ اسباق میں حاضر رہتے اور ہر درس کے بعد لازمی طور سے تکرار کرتے ، گیارہ بجے شب میں دارالعلوم کے سارے طلبہ آرام کرتے مگر آپ ’’ ومن طلب العلى سهر اللیالی“ کے تحت مطالعہ میں غرق رہتے ۔ حوائج ضروریہ کے بعد جو کچھ وقت بچتا اسے آپ تحقیقی مضامین لکھنے اور غیر درسی و خارجی کتب بینی میں صرف فرماتے ۔ غرض کہ آپ کے زمانہ طالب علمی کو ملاحظہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ آپ نے زمانہ طالب علمی میں ڈاکٹر اقبال کی اسی فکر کو مطمح نظر بنالیا تھا کہ
وہ قوم نہیں لائق ہنگامۂ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے
بیعت و ارادت: حضرت شیخ الاسلام کو شرف بیعت اپنے حقیقی ماموں شیخ المشائخ قدوۃ السالکین حضرت علامہ الحاج الشاہ سید مختار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمۃ والرضوان سے حاصل ہے ، جو اس وقت آستانه اشرفیہ سر کار کلاں کےسجادہ نشیں تھے ۔ بیت وارادت کی یہ روحانی رسم ۲۶/ شوال المکرم ۱۳۸۱ھ کو انجام پذیر ہوئی۔
خلافت و جانشینی: حضور محدث اعظم ہند کے سانحہ ارتحال کے بعد شوال المکرم ۱۳۸۱ھ مطابق مارچ ۱۹۶۲ء میں آپ کے چہلم کا انعقاد ہوا ۔ اس موقع پر اکابر اسلام، اساطین خاندان ، قائدین عظام اور مشائخ کرام نے ہزاروں مریدین ، معتقدین اور متوسلین کے اجتماع میں شیخ الاسلام کو حضور محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ کا جانشین منتخب فرمایا اور اس طرح ملک و بیرون ہند میں پھیلے ہوۓ لاکھوں عقیدت مندوں اور مریدوں کی زمام قیادت سپرد کی گئی۔
دستار فضیلت: شیخ الاسلام نے دورہ حدیث کی تکمیل کرنے کے بعد جلالة العلم حضور حافظ ملت علیہ الرحمتہ والرضوان کے خوشہ چینوں میں اپنے آپ کو شامل کر لیا اور پھر آپ کو ۲۵/ سال کی عمر میں ۱۰/ شوال المکرم ۱۳۸۲ھ مطابق جنوری ۱۹۶۳ء کو سند فراغت و دستار فضیلت سے نوازا گیا۔ اور اس طرح آپ نے ۱۰/ سال تک اپنی علمی تشنگی بجھانےمیں صرف کیے ۔
اساتذہ کرام: آپ نے اپنے وقت کے جید ، متبحر ، کامل اور ماہر علماے کرام و مشائخ عظام سے اکتساب علم وفیض کیا۔ ان میں سے چند یہ ہیں:
(۱) مخدوم ملت حضور محدث اعظم ہند (والد گرامی) (۲) جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآبادی(۳) صدرالصدور حضرت علامہ غلام جیلانی اعظمی (۴) فضیلۃ العلم و خطیب الہند حضرت علامہ عبد المصطفى عظمی(۵)جامع معقولات و منقولات حضرت علامہ عبد الرؤف بلیاوی (۶) بحرالعلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان عظمی(۷) اشرف العلما حضرت مولانا سید حامد اشرف (۸) شیخ القرا حضرت مولانا قاری محمد یحییٰ اعظمی علیہم الرحمۃ والرضوان ۔
0 Comments