نصاب زکوٰۃ اور نصاب صدقۂ فطر و قربانی میں فرق

سوال: زکوٰۃ,صدقۂ فطر اور قربانی ان سب کا نصاب ایک ہے یا اس میں کچھ فرق ہے؟بینوا و تؤجروا


الجواب بعون الملک الوھاب:

ان کے نصابوں میں خاصا فرق ہے۔زکوۃ کا نصاب علیحدہ ہے اور صدقۂ فطر و اور قربانی کا الگ۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ عبد الحی فرنگی محلی علیہ الرحمۃ نے حاشیۂ ہدایہ میں جو لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نصاب تین طرح کا ہے: ایک وہ نصاب جس میں حولان حول یعنی سال گزرنے اور نمو کی شرط ہے۔نمو کا مطلب یہ ہے مال بڑھنے والا ہو۔خواہ حقیقتاً بڑھے جیسے مال تجارت یا حکما بڑھے جیسے سونا چاندی اور کرنسی یہ نصاب صرف زکوۃ کا ہے۔اب اگر یہ اموال نامیہ حاجت اصلیہ سے فارغ اتنے ہوں کہ ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی مالیت کے برابر ہوجائیں تو زکوٰۃ فرض ہوگی اور سونا چاندی مال تجارت اور کرنسی میں سے کوئی بھی چیز نصاب کی برابر نہ ہو لیکن گھر میں کوئی ضرورت سے ماورا غیر تجارتی سامان ہو تو اگر چہ اس کی قیمت نصاب کو پہنچ جائے بلکہ اس کے کئی گنا ہوجائے اس سے زکوۃ فرض نہیں ہوگی۔

دوسرا نصاب وہ ہے جس میں ان میں سے کوئی شرط نہیں۔یعنی نہ تو اس پر سال گزرنا ضروری ہے اور نہ اس کا نامی ہونا ضروری ہے۔اس نصاب سے صدقۂ فطر اور قربانی متعلق ہے۔

لہذا کوئی اگر حاجت اصلیہ سے زائد غیر تجارتی کسی ایسی چیز کا بھی مالک ہو جس سے ساڑھے باون تولہ چاندی خریدی جا سکتی ہے تو اس پر صدقۂ فطر اور قربانی واجب ہے۔

نصاب زکوٰۃ اور نصاب صدقۂ فطر و قربانی میں فرق
 نصاب زکوٰۃ اور نصاب صدقۂ فطر و قربانی میں فرق


تیسرا وہ نصاب ہے جس سے سوال یعنی بھیک مانگنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے اس نصاب کے بارے میں بعض کا نظریہ ہے کہ اس کے پاس کم از کم ایک دن کا کھانا ہو اور بعض فرماتے ہیں کہ پچاس درہم کی مالیت ہو۔{حاشیۂ ہدایہ ,کتاب الزکوۃ,باب صدقۃ الفطر,جلد اول,ص:١٨٨, مجلسِ برکات مع اضافہ}

مسطورہ بالا اقتباس سے زکوۃ اور صدقۂ و قربانی کے نصابوں کا فرق واضح ہو کر سامنے آگیا کہ زکوٰۃ میں مال کا نامی یعنی سونا چاندی یا مال تجارت یا کرنسی کا ہونا ضروری ہے ان کے علاوہ صرف کسی حاجت اصلیہ سے زائد سامان جسے تجارت کی غرض سے نہ خریدا گیا ہو,اس سے زکوۃ فرض نہیں ہوگی اگرچہ اس کی قیمت لاکھوں بلکہ کروڑوں ہوں۔اور اس مال پر سال گزرنا بھی ضروری ہے۔

مگر صدقۂ فطر اور قربانی کے نصاب میں حاجت اصلیہ سے فارغ کسی غیر تجارتی سامان کا مالک ہو جانا بھی کافی ہے جبکہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جائے۔اور اس میں سال گزرنے کی بھی شرط نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب


از محمد سرور عالم اشرفی, اتردیناج پور

Post a Comment

0 Comments