ہرانسان کو سب سے عزیز اس کی زندگی ہوتی ہے۔کہا جاتا ہے" جب تک جان ہے جہان ہے"،لیکن لوگوں کی ایک لمبی قطار ہے جو سانس لینے کے باوجود حقیقی معنوں میں مردہ ہیں۔جو گردش حالات کے تھپیڑوں سے گھبراکر اپنے اعزاو اقارب سے منہ پھیر کر ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ مسدود ہے۔دنیاوی الجھنوں سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔بالآخر جھنجھلا کرخودکشی جیسا جرم عظیم کا ارتکاب کر کے نظام قدرت کو چیلینج کر بیٹھتا ہے۔۔۔۔العیاذ باللہ۔
عالمی صورت حال...
گذشتہ کچھ سالوں سے خودکشی کے واقعات جس تیزی کے ساتھ بڑھ رہے ہیں وہ حیران کن ہیں۔ادنیٰ اور معمولی وجوہات کی بنا پر اپنی عزیز جان کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔دنیا بھر میں خود کشی کے واقعات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عالمی ادارہئ صحت (WHO)کی رپورٹ کے مطابق ہر سال آٹھ لاکھ سے زائد خودکشیاں ہوتی ہیں،یعنی ہر چالیس سیکنڈ میں ایک آدمی خودکشی کر کے اپنی جان لیتا ہے۔دنیا میں کل اموات میں خودکشی کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح ایک اعشاریہ آٹھ فی صدہے۔ایک اور سروے کے مطابق پوری دنیا میں ہر تین سیکنڈ میں خودکشی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اور ہر بیس میں سے ایک آدمی خودکشی کرنے میں کامیاب جبکہ باقی انیس ناکام ہوجاتےہیں.
![]() |
خودکشی کی مذمت آیات قرآنی کی روشنی میں, خودکشی کرنا اسلام میں کیسا یے |
ہندوستان کی صورت حال۔۔۔
ترقی کے دعویدار ہمارا ملک ہندوستان میں بھی گذشتہ چند سالوں سے حیرت انگیزطور پر خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے،عالمی ادارہئ صحت کے رپورٹ کے مطابق،سرِفہرست ممالک میں ہندوستان 12ویں نمبر ہے۔WHO کے ڈاٹا کے مطابق دنیا بھرمیں آٹھ لاکھ سے زائد افراد خودکشی سے ہلاک جاتے ہیں۔ان میں ایک لاکھ پینتیس ہزار ہندوستان کے باشندے ہیں۔خودکشی سے ہونے والی کل اموات میں جس کی شرح سترہ فیصد ہے۔ایک ایسا ملک جو دنیا کی سترہ اعشاریہ پانچ فیصد آبادی رکھتا ہے اس میں خودکشی کا یہ تناسب واقعی تعجب خیز ہے۔
خودکشی کی مذمت آیات قرآنی کی روشنی میں۔۔۔
زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاکردہ،انسانوں کیلئے سب سے بڑی نعمت ہے۔بلکہ دنیوی تمام نعمتوں کی اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔کیوں کہ عبادت وریاضت،حق کی خوشنودی اور آخرت کی بہتری وغیرہ اسی پر موقوف ہے۔ لہذااس دارالعمل میں بامقصد حیات کیلئے تگ ودوکرنے کے بجائے خودکشی کرنا ایک بزدلانہ عمل اور رب کی ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔
یہ زندگی رب کی امانت ہے اس میں کسی قسم کی دخل اندازی اور بے جا تصرف اس کے نظام کو چیلنج کرناہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام سب سے پہلے خودکشی کی سخت مذمت کرتا ہے،اور لوگوں کو اس سے نفرت دلاتا ہے۔موت وحیات کا مالک حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔اسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا بلا وجہ تلف کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ارشاد ربانی ہے۔۔۔ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکۃ و احسنوا ان اللہ یحب المحسنین (البقرہ۔۔۵۹۱)۔
امام بغوی نے سورہ نساء کی آیت نمبر ۰۳ کی تفسیر کے ذیل میں سورہ بقرہ کی مذکورہ آیت نمبر ۵۹۱ بیان کر کے لکھا ہے: و قیل اراد بہ قتل المسلم نفسہ۔یعنی اس سے مراد مسلمان کا خود کشی کرنا ہے۔(معالم التنزیل)۔ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ولاتقتلواانفسکم ان اللہ کان بکم رحیما(النساء۔۔۹۲۔۰۳)۔ترجمہ۔اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔(کنزالایمان)۔امام فخرالدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے۔(ولا تقتلواانفسکم)یدل علی النہی عن قتل غیرہ وعن قتل نفسہ بالباطل۔یعنی یہ آیت خودکشی اور دوسرے کو ناحق قتل کرنے کی ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔ مزید بر آں امام بغوی نے معالم التنزیل میں،حافظ ابن کثیر نے تفسیر القرآن العظیم میں،ثعالبی نے جواہر الحسان فی تفسیر القرآن میں،محمد علی الصابونی نے مختصر تفسیر ابن کثیرمیں اور اسماعیل حقی نے روح البیان میں سورہئ نساء کی مذکورہ بالا آیت کے تحت خود کشی کی حرمت پرمبنی احادیث درج کی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ائمہئ تفسیر کے نزدیک بھی یہ آیات خود کشی کی ممانعت اور حرمت پر دلالت کرتی ہیں۔
خودکشی کی مذمت احادیث کی روشنی میں۔۔
احادیث مبارکہ میں بھی خودکشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:فان لجسدک علیک حقا وان لعینک علیک حقا۔تمہارے جسم کابھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے(بخاری،الصحیح۔کتاب الصوم)۔
ایک اور مقام پر حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:من قتل نفسہ بحدیدۃفحدیدتہ فی یدیہ یتوجأبھا فی بطنہ فی نار جہنم خالدا مخلدافیھا ابدا،ومن شرب سما فقتل نفسہ فھویتحساہ فی نار جہنم خالدا مخلدا فیھا ابدا،ومن تردی من جبل فقتل نفسہ فھویتردی فی نار جہنم خالدا مخلدا فیھا ابدا۔یعنی جس نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیا رسے قتل کیاتو وہ ہتھیا ر اس کے ہاتھ میں ہوگا،اور ہمیشہ کیلئے جہنم کی آگ میں اسے اپنے پیٹ میں گھونپتا رہے گا۔جس نے زہر پی کر خودکشی کی وہ ہمیشہ کیلئے جہنم میں اسے گھونٹ گھونٹ پیتا رہے گا۔اور جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر خودکشی کی وہ ہمیشہ کیلئے جہنم کی آگ میں پہاڑ سے گرتا رہے گا۔(مسلم،الصحیح۔)
یہ احکام نبوی واضح طور پراپنے جسم و جان اور تمام اعضا کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔نیز آپ ﷺ نے خودکشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کوفی نار جہنم یتردی فیھاخالدا مخلدا فیھا ابدا فرما کر درد ناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔
شرعی احکام۔۔
امام احمد ابن حنبل رضی اللہ عنہ کے قدرے اختلاف کے ساتھ جملہ ائمہئ اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خودکشی کرنے والا آدمی اس فعل کی وجہ سے خارج از اسلام نہیں ہوتا ہے۔لہٰذا اس کی تجہیز وتکفین کی جائے گی اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی کیا جائے گا۔
قال ابن بطال:اجمع الفقھاء واہل السنت ان من قتل نفسہ لایخرج بذٰالک من الاسلام وانہ یصلی علیہ و اثمہ علیہ ویدفن فی مقابرالمسلمین۔ابن بطال نے فرمایا:کہ تمام فقہاے اہل سنت و جماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خودکشی کرنے والا شخص خارج از اسلام نہیں ہوتا ہے۔گنہگار ضرور ہوگا۔لہٰذا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اورمسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی کیاجائے گا۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح،لابن الملقن الشافعی)۔
امام احمد ابن حنبل رضی اللہ عنہ کے نزدیک وقت کا امام نماز جنازہ خود نہیں پڑھے گا بلکہ عوام الناس کو پڑھنے کی اجازت دے گا۔دلیل۔۔اتی النبی ﷺ برجل قتل نفسہ بمشاقص فلم یصل علیہ۔حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں ایک آدمی لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے قتل کر ڈالا تھا تو آپ نے خود اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔(کشف المشکل فی حدیث الصحیحین،لابن جوزی)۔ من قتل نفسہ اوغل فی الغنیمۃ یغسل و یصلی علیہ عندناو بہ قال ابو حنیفہ ومالک وداؤد وقال احمد لا یصلی علیہماالامام و تصلی بقیۃ الناس۔جس نے خودکشی کی یا مال غنیمت میں خیانت کیا اور مرگیا تو ہمارے نزدیک اس کوغسل دیا جائے گا اورنمازجنازہ بھی پڑھی جائے گی۔یہی قول امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک اور امام داؤد کا بھی ہے۔امام احمد ابن حنبل کا کہنا ہے کہ ان دونوں کی نماز جنازہ امام نہیں پڑھے گا جبکہ باقی لوگ ادا کریں گے۔(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل الشیبانی)۔
ردالمحتارعلی درالمختار میں ابن عابدین شامی نے احناف کے موقف کو کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے: ومن قتل نفسہ ولو عمدایغسل و یصلی علیہ وبہ یفتیٰ وان کان اعظم وزرامن قاتل غیرہ۔ یعنی جس نے خود کشی کی اگر چہ اس کی حرمت کو جان بوجھ کر ہو اسے غسل دیا جائے گا اور نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی اور اسی پر فتویٰ ہے،یہ اور بات ہے کہ خود کشی کرنا دوسرے کو قتل کرنے سے بڑا گناہ ہے۔
آخری بات۔۔
اسلام میں زندگی اللہ تعالیٰ کی ایک بیش بہا نعمت ہے۔یہ ایسی نعمت ہے جو فقط ایک بار نصیب ہوتی ہے۔گردش حالات سے گھبرا کر خود اپنے ہاتھو ں اپنی جان گنوا دینا حماقت و بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے۔اگر اس کے دامن میں کئی محرومیاں،تشنگیاں،پریشانیاں اور دکھ درد ہیں تو اس کی نعمتوں،محبتوں اور عنایتوں کی بہتات بھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:ان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا۔(آیت)۔
اگر ہم خود اپنے ہنر سے سماج و معاشرہ کے چکر سے نکل کر اپنی دنیا آپ سجانا چاہیں، خواہشات کو مختصر کردیں۔اپنی ضروریات کی فہرست چھوٹی کردیں،اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں پر قناعت کرنا سیکھ لیں اور اپنے حال پر مطمئن ہوجائیں تو ایک حسین جمیل دنیا خود بنا سکتے ہیں اور فرحت و انبساط کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ پوری انسانیت کو اس بلا محفوظ فرمائے۔آمین
پرسوز و نظربازو نکوبین وکم آزار
آزواد وگرفتار و تہی کیسہ و خورسند (اقبال)
از قلم۔۔۔۔۔۔محمد چاند علی قمرؔ جامعی
0 Comments