١٨ ذوالحجہ بموقعہ یوم شہادت پاک مخزن حیا، سردار اہل صفا، جامع القرآن، ذوالنورین، امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اسمِ گرامی:
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ کنیت: ابوعبداللہ۔ لقب: غنی، جامع القرآن، اور ذوالنورین-
سلسلہ نسب:
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی زاد بہن کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کا نسب والدہ اور والد دونوں نسبتوں سے سرکار دوعالم ﷺ کے جد امجد حضرت عبد مناف سے ملتا ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت واقعۂ فیل کے چھ سال بعد مکۃ المکرمہ میں ہوئی۔
لقب ذوالنورین: یعنی دو نوروں والا-
منقول ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور خاتم الانبیاء ﷺ تک کسی بھی اللہ کے نبی کی دو صاحبزادیاں کسی بھی خوش نصیب شخص کے نکاح میں نہیں آئیں لیکن امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو یہ خصوصیت و انفرادیت حاصل ہے کہ نبی الانبیاء نور مجسم ﷺ کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں۔ اسی وجہ سے آپ کو ذوالنورین یعنی دو نوروں والا کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔
اورصرف یہی نہیں بلکہ امیر المومنین حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے یہانتک روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ: میں نے رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد سنا ہے کہ آپ ﷺ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمارہے تھے کہ: "اگر میری چالیس لڑکیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے میں ان سب کا نکاح اے عثمان! تم سے کر دیتا یہانتک کہ کوئی باقی نہ رہتی۔"(حضرت عثمان غنی ذوالنورین بحوالہ تاریخ الخلفاء)
فضائل و مناقب:
امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاتعداد اوصاف حمیدہ کے حامل ہیں، سخاوت، امانت، دیانت، صداقت، حیا، صلہ رحمی ایسی صفات سے متصف اور کامل و اکمل ہیں-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرتبہ تسلیم ورضا پر فائز تھے، آپ کی سیرت پاک تاریخ اسلام کا ایک درخشاں پہلو ہے، آپ کے لہجے میں نرمی اور حلاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی-
آپ ایک امیر وکبیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے، اسلام قبول کرنے کے بعد آپ نے اپنا مال و زر دین اسلام کے لئے وقف کردیا اور ہر مشکل گھڑی میں اپنی جان و مال کے ذریعہ حضور نبی کریم ﷺ کے شانہ بشانہ رہے اور دین اسلام کی آبیاری کرتے رہے۔ آپ کے حق میں قرآن پاک میں آیتیں نازل ہوئیں۔ صاحب ثروت ہونے کے ساتھ ساتھ فیاضی میں بھی بے مثل تھے-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جن کو مالک کون ومکاں ﷺ نے جنت کی بشارت زندگی میں ہی دے دی ہے۔ حضور اقدس ﷺ آپ کے شرم و حیا کا خیال فرماتے تھے-
آپ بہت ہی حسین و جمیل شخصیت کے مالک تھے-
ابو نعیم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا! "عثمان میری امت کا سب سے زیادہ حیا دار اور کریم شخص ہے۔"
شیخین نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ حضور علیہ السلام نے حضرت عثمان کے آنے پر اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور فرمایا! "کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔"
ابن عساکر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے رسول کریم ﷺ نے فرمایاکہ! "عثمان کی شفاعت سے ستّر ہزار ایسے آدمی جنت میں بلا حساب داخل ہوں گے جو آگ کے مستحق ہو چکے ہوں گے۔" (الصواعق المحرقہ)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مسلمانوں میں سب سے پہلے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ حبشہ کی جانب ہجرت فرمائی-
مدینہ منورہ میں مسلمانوں کے لئے سب سے پہلےمیٹھے پانی کا کنواں "بیر رومہ" کو یہودی سے اونچے داموں پر خرید کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی وقف کیا-
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت پاک کے بعد منصب خلافت پر فائز ہوئے اور حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور فتوحات کو جاری رکھا۔
آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ملکی آمدنی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا اور بہت سا مال غنیمت بیت المال میں جمع ہوا ، آپ نے بیت المال سے لوگوں کے وظائف مقرر کئے اور جن کے پہلے سے مقرر تھے اس میں اضافہ کیا تاکہ لوگ خوش حال ہوسکیں- آپ نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کی ضروریات زندگی کا بھرپور خیال رکھا، آپ اپنی فیاضی و مروت کی وجہ سے قریش و انصار دونوں میں یکساں مقبول تھے-
آپ رضی اللہ عنہ نے مسجد الحرام و مسجد نبوی کی توسیع کروائی اور کچی دیواروں کی جگہ منقش پتھروں کی دیواریں بنوائیں۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت کا ایک سب سے بڑاکارنامہ تجمیع و تحفظ قرآن مجید ہے، آپ رضی اللہ عنہ کا یہ کارنامہ رہتی دنیا تک کے مسلمانوں پر ایک احسان عظیم ہے اور اسی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو"جامع القرآن" بھی کہا جاتا ہے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں نام نہاد یہودی اور عیسائی پیشوا اس بات سے پریشان تھے کہ دین اسلام اپنی بنیادی اساس اخوت اور رواداری کے سبب تیزی سے پھیل رہا ہے چنانچہ ان لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے لئے سازشوں کے جال بننا شروع کردئے جس میں کچھ اپنے بھی شامل ہوگئے، یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی ناجائز خواہشات کی تکمیل کی بجائے شہادت کو گلے لگایا اور درجۂ شہادت پر فائز ہوئے-
جام شہادت:
بلوائیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا اور گھر کا دانہ پانی تک بند کردیا گیا۔ جب بلوائی قتل کرنے کیلئے امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر داخل ہوئے تو اس وقت آپ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے۔ جیسے ہی ان لوگوں نے حملہ کیا تو آپ کا خون اقدس سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر "فَسَیَکْفِیۡکَہُمُ اللہُۚ وَھُوَ السَّمِیۡعُ الْعَلِیۡمُ" پر گرا۔
یہ واقعہ فاجعہ بروز جمعہ 18ذی الحجہ 35ھ کو مدینہ منورہ میں رونما ہوا۔
وقت شہادت آپ کی عمر شریف 82 سال تھی۔ آپ کی قبرِ انور جنت البقیع میں ہے۔
خصوصی التجا:
بارگاہ امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں خوب خوب ایصال ثواب پیش کریں اور اپنی قسمت کو سنواریں- اللہ رب العزت کی بارگاہ بے نیاز میں التجا ہے کہ وہ ہمیں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت پاک پر عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے اور ان کے فیض و کرم سے مالا فرمائے- آمین بجاہ سید المرسلین۔
0 Comments