لا علاج مریضوں کو دوا دے کرمارنے کا شرعی حکم | بیمار شخص کا خودکشی کرنا کیسا ہے

سوال :

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ امید کرتا ہوں کہ آپ سب خیریت سے ہوں گے ۔میری علمائے کرام کی بارگاہ میں گذارش یہ ہے کہ زید کے گھر میں ایک بچّہ پیدا ہوا جس کے سر میں کچھ ایسی بیماری ہے جو لا علاج ہے ایسا زید کا کہنا ہے کہ اس کے ڈاکٹروں نے ایسا کہا ہے ۔ ڈاکٹر دوائی دینا بھی بند کر دیا ہے یہ کہ کر کے اگر زندہ رہا تو زندہ لاش بن کر رہیگا۔

اب زید کا کہنا کی کوئی ایسی دعا بتاؤ جس سے بچہ انتقال ہوجائے ۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسا کرنا یا ایسا کہنا شرعا کیسا ہے۔ کیا ایسا کرسکتے ہیں ۔علمائے کرام رہنمائی فرمائیں ۔

لا علاج مریضوں کو دوا دے کرمارنے کا شرعی حکم | بیمار شخص کا خودکشی کرنا کیسا ہے
لاعلاج مریضوں کو دوا دے کرمارنے کا شرعی حکم | بیمار شخص کا خودکشی کرنا کیسا ہے

الجواب بعون اللہ التواب الوھاب :

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکا تہ

حضور اکرم نورمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ حضرت جابررضی اللہ عنہ یوں نقل فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کے ایک آدمی کے ساتھ ہجرت کی وہ شخص بیمار پڑ گیا اور شدت تکلیف سے گھبرا کر چاقو سے انگلیوں کے پورے کاٹ ڈالے ان کے ہاتھ سے بے تحاشہ خون بہنے لگا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی، حضرت طفیل نے ان کو خواب میں اچھی حالت میں دیکھا۔ البتہ ان کے ہاتھ ڈھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان سے پوچھا اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے۔ تو جواب دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کرنے کے طفیل مغفرت کر دی۔ پر ہاتھ اس لیے ڈھکے ہوئے ہیں کہ مجھے کہا گیا کہ ہم اس چیز کو درست نہیں کرتے جسے تم نے خود بگاڑ دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیماریوں کا علاج کروایا کرو۔ بڑھاپے کے علاوہ ساری بیماریاں وہ ہیں جن کا علاج اللہ تعالی نے پیدا فرما دیا ہے۔

{ترمذی، جلد : 2 باب: ما جاء فی الدواء والحث عليه}

یہ بھی واضح رہے کہ لاعلاج بیماری یا شدت تکلیف کی وجہ سے کسی طرح بھی موت قبول کرنا خود کشی کے زمرے میں ہے اور یہ حرام ہے۔ ارشاد اللہ رب العالمین ہے :

وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ(النساء، آیت 29)

ترجمہ :اوراپنی جانیں قتل نہ کرو ۔( کنزالایمان)

اسی کے تحت خزائن العرفان میں ہے کہ اس آیت سے خود کشی کی حرمت ثابت ہوتی ہے ۔

مشکوۃ المصابیح باب تمنی الموت عن ذکرہ کے فصل اول کی دو حدیثیں ذیل میں پیش کی جاتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ دنیوی مصائب سے گھبرا کر موت کی تمنا کرنا حرام ہے ۔

پہلی حدیث :

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے نیک کار تو اس لیئے کہ شاید وہ نیکیاں بڑھالے اور بدکاراس لیئے کہ شاید وہ توبہ کرے (بحوالہ بخاری)

دوسری حدیث:

روایت ہے انہی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے کوئی نہ موت کی آرزو کرے نہ اس کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے کیونکہ جب وہ مرجائے گا تو اس کی امیدیں ختم ہوجائیں گی اور مؤمن کی عمر بھلائی ہی بڑھاتی ہے (بحوالہ مسلم)

ان حادیث کی شرح کرتے ہوئے بدایونی خطیب حضرت علامہ مفتی الحاج احمد یار خان علیہ الرحمۃ و الرضوان لکھتے ہیں :

دنیوی تکالیف سےگھبرا کر موت نہ مانگے کہ اس میں بے صبری ہے اور خدا کی بھیجی مصیبت پر ناراضی۔

چند سطور بعد مزید لکھتے ہیں :

بیماری اور آزاری سے گھبرا کر موت نہ مانگے ۔

( مرآۃ المناجیح ج2/ موت کی آرزو کا بیان )

مذکورہ بالا تمام عبارات سے واضح ہے کہ لاعلاج مریض کو بھی دوا وغیرہ سے موت طلب کرنا یا موت کے لئے دعا کرنا جائزنہیں ۔ ہاں مریض کے حق میں جوبہتر ہواس کے لئے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کرنا جائز ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

کتبہ:محمد اخترعلی واجد القادری عفی عنہ

Post a Comment

0 Comments