صوبۂ بہار کے آسمان پر علوم و معارف کے جو آفتاب و ماہتاب نمودار ہوئے اور اپنی تجلیوں سے مختلف دیار و امصار کو بقعۂ نور بنایا ، ان میں ایک آفتابِ علم و فضل کا نام علامہ شیخ محمد محسن بن یحییٰ محدث مونگیری ثم پورنوی ہے ۔ آپ کے والد منشی غلام یحییٰ موضع مظفرہ ، متصل بیگو سرائے،ضلع مونگیر ، بہار کے باشندہ اور انگریزی حکومت میں ملازم تھے ۔ بعد میں آپ مظفرہ سے نقل مکانی کر کے موضع خضر چک ، مونگیر میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی ۔ اس وقت خضر چک ، سرکار ترہت کے دائرے میں آتا تھا ۔ ملازمت کے سلسلے میں ایک طویل عرصہ ضلع پورنیہ ، بہار میں بھی گذارا ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے صاحب زادے علامہ شیخ محمد محسن کو " محدث پورنوی " اور " محدث ترہتی " کہا جاتا ہے ۔ آپ خطۂ ترہت کے موضع خضر چک ، مونگیر میں پیدا ہوئے اور وہیں نشو و نما پائی ۔ عربی و فارسی ، نحو و صرف اور علومِ ادبیہ کی کتابیں مولانا رکن الدین قرشی ترہتی ، مفتی عبد الغنی سارنی ، علی جواد سلہٹی ، فقیہ محمد وجیہ بکری ترہتی اور شیخ محمد سعید بن واعظ علی عظیم آبادی سے پڑھیں ۔ اس کے بعد کان پور تشریف لے گئے اور شیخ سلامت اللہ بدایونی کی صحبت میں دو سال رہے اور ان سے اکتسابِ فیض کرتے ہوئے بخاری شریف کے ابتدائی حصوں کا درس لیا ۔ اس کے بعد مشہور منطقی و فلسفی حضرت علامہ فضل حق بن فضل امام خیر آبادی اور مفتی واجد علی بن ابراہیم بنارسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا ۔ حضرت علامہ عبد الغنی محدث دہلوی سے حدیث کی کتابیں پڑھیں اور ایک دقاق عالم اور متبحر محدث بن کر ابھرے ۔ تحصیلِ علوم سے فارغ ہونے کے بعد زیارتِ حرمین شریفین کے ارادے سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اور وہاں کے شیوخ سے علمی استفادہ کیا ۔ سات سال تک وہاں مقیم رہے اور مسجدِ حرام میں درس و تدریس کا مقدس فریضہ انجام دیا ۔ مطالعۂ کتب کے بڑے شوقین تھے اور نادر و نایاب کتب جمع کرنے کا شوق تھا ۔
![]() |
حضرت علامہ شیخ محسن بن یحییٰ محدث مونگیری ثم پورنوی |
راقم الحروف کو علامہ موصوف کی تاریخِ ولادت و وفات کا علم نہ ہو سکا ۔ آپ کی گراں قدر عربی تصنیف " الیانع الجنی " کے سرِ ورق پر لکھا ہے کہ آپ ۱۲۸۰ ھ میں بقیدِ حیات تھے ۔ بہر کیف ! حضرت علامہ شیخ محسن محدث مونگیری ثم پورنوی اپنے عہد کے جید عالم ، ممتاز محدث ، عربی زبان و ادب کے زبردست ادیب و انشا پرداز اور علامہ فضل حق خیر آبادی کے قابلِ فخر شاگرد تھے ۔ سید مناظر احسن گیلانی نے اپنے ایک مکتوب میں آپ کے قائم کردہ کتب خانہ [ جو خضر چک ، مونگیر ، بہار میں واقع تھا ] کا ذکر کیا ہے ۔ " مکاتیبِ گیلانی " کے حاشیہ میں شیخ محسن محدث پورنوی کا مختصر حال ان الفاظ میں مذکور ہے :
شمالی مونگیر میں ایک گاؤں خضر چک ہے ۔ یہ کتب خانہ وہیں واقع ہے ۔ کتب خانہ کے بانی اور جامع مولانا سید محسن محدث ہیں ۔ آپ کے والد منشی غلام یحییٰ موضع مظفرہ متصل بیگو سرائے ، ضلع مونگیر ، بہار کے رہنے والے تھے اور انگریزی حکومت میں ناظر کے منصب پر سرفراز تھے ۔ ملازمت کے سلسلے میں ایک عرصہ تک پورنیہ میں بھی رہے ۔ ملازمت کے علاوہ بڑی جائداد کے مالک تھے ۔ جوانی ہی میں موضع مظفرہ سے خضر چک ( مونگیر ) آ گئے تھے ۔ اس وقت خضر چک کا علاقہ سرکار ترہت میں تھا ۔ انہوں نے اپنے صاحب زادہ مولانا محمد محسن کی تعلیم پر دل کھول کر خرچ کیا ۔ مولانا علیہ الرحمہ نے ابتدائی تعلیم کلکتہ میں اور انتہائی تعلیم دلی میں حاصل کی اور حضرت شاہ عبد الغنی محدث دہلوی کے ارشد تلامذہ میں تھے ۔ آپ ہی نے " الیانع الجنی فی أسانید شیخ عبد الغنی " لکھی ۔
ہندوستان سے علومِ مروجہ کی فراغت کے بعد مکہ معظمہ چلے گئے اور وہاں کے شیوخ سے استفادہ کیا اور مسلسل سات سال تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے اور مسجدِ حرام میں درس دیتے رہے ۔ وہیں کتابیں جمع کرنا شروع کیں ۔ حجاز کے کتب خانوں میں جو نایاب کتابیں تھیں ، ان کی نقلیں کرائیں اور مطبوعہ کتابیں بازار سے خریدیں اور جب ہندوستان آئے تو ایک قیمتی کتب خانہ ساتھ لائے ، جسے اپنے مکان واقع خضر چک ، ضلع مونگیر میں مرتب کیا اور سجایا ۔ ایک روایت کے مطابق کتب خانہ میں کتابوں کی تعداد تیس ہزار ( ۳۰۰۰۰ ) تھی ۔ تعداد جو بھی ہو ، لیکن کتب خانہ وسیع اور قیمتی تھا ۔ خصوصاً فنِ حدیث کا بہترین متداول اور نایاب ذخیرہ یہاں موجود تھا ۔ ۱۹۰۰ ء میں ہندوؤں نے اختلاف کی بنا پر گاؤں گاؤں پر حملہ کیا ، باغوں کے درخت تک کاٹ ڈالے اور کتب خانہ کی کتابوں کو دریا میں ڈال دیا اور پھاڑ دیا ۔ پھر بھی پانچ ہزار کتابیں رہ گئی تھیں ۔ خود مولانا گیلانی ( سید مناظر احسن گیلانی ) نے خضر چک جا کر ( اس کتب خانہ ) سے استفادہ کیا ہے ۔
(مقالاتِ گیلانی ، جلد اول ، ص : ۳۷۴ / ۳۷۵ ، ناشر : دار الاشاعت خانقاہ رحمانی ، مونگیر ، بہار )
شیخ محسن محدث کے فضل و کمال ، علمی لیاقت ، ادبی رسوخ اور خصوصیت کے ساتھ علومِ حدیث میں مہارت پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔ " فہرس الفہارس " کے مصنف علامہ کتّانی نے آپ کی علمی فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کی عربی دانی اور عربی نثر نگاری پر تعجب کا اظہار کیا ہے ، چنانچہ وہ لکھتے ہیں :
الشاب المحدث البارع العلامۃ ، و قال أیضاً : و لا أعجب من إنشاء مؤلفہ بالعربی مع أنہ عجمی اللسان و النسب ، و للہ فی خلقہ عجب ۔ (فھرس الفھارس ، جلد دوم ، ص : ۱۱۶۵)
موصوف کے ہم عصر مؤرخ عبد الحیی حسنی صاحبِ نزھۃ الخواطر لکھتے ہیں :
الشیخ العالم المحدث ....... کان من کبار العلماء .
آپ کے تلمیذِ رشید شیخ عبد الجلیل برّادہ نے آپ کو " فرید العصر و نادر الدھر " جیسے القاب سے یاد کیا ہے ۔ شیخ عبد الوہاب دہلوی نے " استفدت من ھاؤلاء المؤلفین " میں آپ کو " من اھل الحدیث و کان عالما کبیرا و ذکیا " کہا ہے ۔
( مقدمۃ الیانع الجنی من أسانید الشیخ عبد الغنی ، ص : ۱۹ ، مطبوعہ : أورقۃ للدراسات و النشر ، عمان ، أردن )
"الیانع الجنی عن أسانید الشیخ عبد الغنی" :
" الیانع الجنی عن أسانید الشیخ عبد الغنی " حضرت علامہ شیخ محسن محدث مونگیری کی ایک بلند پایہ علمی تصنیف ہے اور علومِ حدیث کے مہتم بالشان شعبہ " علم الاسناد " کے اصول و مبادی پر مشتمل ہے ۔ آپ کے ہم عصر مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن بھوپالی نے " ابجد العلوم " کی تالیف کے دوران اس کتاب سے بھی استفادہ کیا تھا ۔ آپ نے یہ کتاب ۱۲۸۰ ھ میں تحریر فرمائی ہے ۔ کتاب کا آغاز حمدِ الہیٰ اور علم الاسناد کی اہمیت و افادیت کے بیان سے ہوتا ہے :
الحمد للہ علیٰ ما أسبغ علینا من نعمہ و أدرّ علینا من عزالی کرمہ و حمدا یولی حامدہ بالخیر العتید و یمتری لہ أخلاف الکرامۃ و المزیدۃ و الصلوٰۃ و السلام علی من أحیا بہ دینہ و قوّی ساعدہ و عضّد یمینہ و نصر بہ من جدب ھداہ و نسج بہ لحمۃ الشرع و سداہ ، حتی آض محجۃ بیضاء ، لیلھا و نھارھا سواء و علی آلہ و صحبہ الذین بلغونا أحکامہ و حفظوا علینا سننہ و أیامہ و قادروا بنواصینا الی سیرہ و شادوا لنا من ھدیہ و أثرہ و علی من جاء بعدھم و جری علی سبیل قصدھم ۔
وبعد : فإن أشرف علم بعد القرآن العزیز و أرفعہ منارا و أعمقہ أسرارا و أبھرہ أنوارا ، و أرجاہ ذخرا للمعاد ، و أنجعہ فیمن یرتاد الرشاد ، و أعلقہ بأفئدۃ أبناء الآخرۃ ، و أرسخہ عرقا فی المحاسن الفاخرۃ ، علم الحدیث الذی کلّت الألسن عن استیفاء حق ثنائہ ، و تھالکت النفوس الزاکیات علی اقتنائہ ، ھو الفصل بین صحیح القول و فاسدہ ، و المیزان العدل لمعرفۃ الوازن عن کاسدہ . ثم إن من أبلج ما أکرم اللہ سبحانہ بہ ھذہ الأمۃ و أنعم بہ علی أعیانھا الأئمۃ من المنازل الفاضلۃ العالیۃ ، و شرفھم بھا علی سائر الأمم الخالیۃ إبقاءہ فیھم لسلسلۃ الإسناد التی تصل حبلنا بصفوۃ أنبیائہ ، و قدوۃ أصفیائہ ، و لذالک تری الفحول من عظماء ھذا الشان فی عامۃ البلدان و الأزمان یشدون فی طلبہ رحالا و یکابدوں أھوالا و یشأون نحوہ شأو المھا و یطیرون تلقاءہ بأجنحۃ القطا .
(مقدمۃ الیانع الجنی عن أسانید الشیخ عبدالغنی ، ص : ۳۰ )
مذکورہ بالا خطبۂ کتاب کی عبارت سے شیخ محدث پورنوی کی عربی نثر نگاری میں مہارت و حذاقت کا پتہ چلتا ہے ۔ " الیانع الجنی " کی ترتیب اور اس کا منہج یہ ہے کہ مصنف نے سب سے پہلے مؤطا امام مالک ، صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، سننِ ابی داؤد ، جامعِ ترمذی ، سننِ نسائی اور سننِ ابن ماجہ کا جامع تعارف اور ان کتب کے سلسلۂ اسانید کا مفصل ذکر کیا ہے اور اس کے بعد ان کے مصنفین کی حیات و خدمات اور اوصاف و کمالات پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ۔ بعد ازاں آپ نے اپنے شیخ و استاذ حضرت علامہ عبد الغنی بن ابو سعید محدث دہلوی کا ذکرِ جمیل کرتے ہوئے حضرت علامہ شیخ عابد انصاری ، حضرت شاہ ولی اللہ و حضرت شاہ عبد عبد العزیز محدث دہلوی قدس سرھم کے احوال و مناقب بیان کیے ہیں ۔
از قلم : معروف قلمکار طفیل احمد مصباحی
0 Comments