کیا بیوہ اپنے شوہر کے مکان کے علاوہ کہیں اور جگہ عدت کے ایام گزارسکتی ہے؟

السلام علیکم ورحمۃاللہ برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ ایک عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ اس کی عدت میں ہے مگر وہ عورت اس گھر میں عدت گزارنا نہیں چاہتی جس میں وہ عدت گزار رہی ہے کسی مجبوری کی وجہ سے تو کیا وہ دوسرے گھر میں عدت گزار سکتی ہے؟ ۔


الجواب بعون الملک الوھاب

اللھم ھدایة الحق والصواب...

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ، جس عورت کا شوہر انتقال کرجائے وہ عورت اپنی عدت کے ایام کہاں گزارے؟ تو اس بارے حکم شرع یہ ہے کہ عورت پر اپنی عدت کے ایام وہیں گزارنا واجب ہے جہاں وہ اپنے متوفی شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ بلا ضرورت شرعیہ بیوہ کے لیے شوہر کے گھر کے علاوہ کہیں اور جاکر عدّت گزارنا ناجائز وگناہ ہے۔

کماقال اللہ تعالی"لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُیُوْتِهِنَّ وَ لَا یَخْرُجْنَ اِلَّاۤ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍؕ"-

ترجمہ: عدت میں انھیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ آپ نکلیں مگر یہ کہ کوئی صریح بے حیائی کی بات لائیں۔

اسی طرح ترمذی اور ابوداود شریف کی ایک حدیث پاک میں ہے کہ

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن حضرت فریعة بنت مالک رضی اللہ تعالیٰ عنھا بیوہ ہوئیں تو انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا :

” کیا میں اپنے میکے جاکر عدّت گزار سکتی ہوں؟” اللہ کے رسولﷺ نے پہلے تو انھیں اجازت دے دی ، لیکن تھوڑی دیر کے بعد بلا کر فرمایا :

"امْكُثِي فِي بَيْتِكِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ۔’’ اپنے (شوہر کے) گھر میں ہی ٹھہری رہو ، یہاں تک کہ قرآن میں مذکور عدّتِ وفات کی مدّت پوری ہوجائے۔‘‘(ترمذی شریف ، حدیث نمبر ١٢٠۴/ ابوداؤد شریف: حدیث نمبر ٢٣٠٠)

ایسا ہی فتاویٰ عالمگیری ، جلد اول، ص ۵٣۵ ، فتاویٰ رضویہ جدید ، جلد ١٣، ص: ٣٣٠ ، فتاویٰ امجدیہ ، جلد دوم ، ص: ٢٨۵ میں بھی ہے۔

ان ساری عبارات مذکورہ بالا سے یہ بات واضح ہوچکی کہ شوہر نے جس مکان میں بیوی کو رکھا ہوا تھا اس کے انتقال پراسی مکان میں عدت گزارنا اس پر عورت پر واجب ہے. بلاضرورتِ شرعیہ اس مکان سے عورت کا نکلنا اور کسی دوسرے مکان میں عدت کیلئے جانا ،ناجائز و گناہ ہے۔

ہاں اگر کوئی مجبوری ہو تو دوسری جگہ عدت کے لیے جاسکتی ہے۔

پس سوال میں مذکور عورت کو اگر فی الواقع اپنے مرحوم شوہر کے گھر عدت گزارنے میں کوئی شرعی مجبوری ہےمثلًا اس کے شوہر کا مکان کرایے کا ہے اور مالکِ مکان اسے خالی کروا رہا ہے ، یا اس کے ساتھ وہاں کوئی رہنے والا نہیں ہے اور اسے اکیلی رہنے میں یا ساتھ میں کسی کے رہنے کے باوجود وہاں اسے اپنی عزت و آبرو جان ومال پر حملے کا شدید خوف محسوس ہورہا ہے، یا وہ عورت کسی کےسہارے کی محتاج ہے اور اسے اپنے شوہر کے یہاں کوئی سہارا دینے والا نہیں ہے ، ایسی کوئی مجبوری ہے تو وہ عورت دوسری محفوظ جگہ جہاں اسے کسی چیز کا خطرہ و خوف نہ وہاں منتقل ہوکر اپنی عدّت کے ایام گزار سکتی ہے۔ لیکن اگر ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ وہ صرف یوں ہی وہاں رہنا نہیں چاہتی ہے یا اس کا دل وہاں نہیں لگ رہا ہے تو اس بنا پر اس عورت کو دوسری جگہ عدت گزارنے کی شرعٙٙا اجازت نہ ہوگی بلکہ ایسی صورت میں اس کو اپنے شوہر ہی کے گھر میں عدت گزارنا واجب ہوگا۔ فقط واللہ ورسولہ اعلم بالصواب۔

کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

Post a Comment

0 Comments