سوال:
مسلمان کسی غیر مسلم کو اپنا خون تحفہ میں یا قیمت میں دے سکتا ہے یا نہیں.
الجواب بعون الملک الوھاب
اللھم ھدایة الحق والصواب
بوقت ضرورت جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو خون دے سکتا ہے اسی طرح ایک غیر مسلم کو بھی دے سکتا ہے اس لیے کہ یہ باب علاج سے ہے اور علاج سب کا جائز ہے ۔ اسی طرح کا ایک سوال سراج الفقہاء ، محقق مسائل جدیدہ حضرت علامہ مفتی نظام الدین صاحب سابق صدرالمدرسین و موجودہ شیخ الحدیث وصدر شعبہ افتا الجامعة الاشرفیہ مبارکپور سے کیا گیا تو آپ اس کے جواب میں یوں لکھتے ہیں: "ایسی کوئی قید نہیں ہے، جان بچانے کے لیے بلا عوض خون دینا اور حاجت مند کو خون لینا دونوں جائز ہے ۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ،کہ جان بچانے کے لیے خون دینا لینا باب علاج سے ہے اور علاج سب کا جائز ہے"۔ (فتاوی: سراج الفقہاء)
البتہ قیمت لے کر خون دینا لینا مسلم و غیر مسلم ہرایک کے ساتھ منع ہے اس لیے کہ رب کائنات نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کے ساتھ ساتھ حیات و ممات ہرحالت کے اعتبار سے اپنی جمیع اعضاء کے ساتھ معظم ومکرم بھی بنایا ہے کما قال اللہ تعالیٰ "لقد کرمنا بنی اٰدم"۔اور ایک دوسری جگہ ہے"ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم"۔یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام رضی اللہ تعالی علیھم اجمعین نے انسان کے کسی بھی جزء کو دوا کے طور پر استعمال کرنے کو ناجائز قرار دیا ہےجیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد پنجم صفحہ نمبر ٣۵۴/ میں ہے:
الانتفاء باجزاء الآدمی لم۔ یجز قیل للنجاسة وقیل للکرامة وھو الصحیح"۔
وقال محمد رحمة اللہ تعالی "والآدمی فانہ یکرہ التداوی بھما فقد جوز التداوی بعظم ماسوی الخنزیر والآدمی من الحیوانات مطلقا"۔
عبارات مذکورہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کے محترم و مکرم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے اعضا بھی محترم ہیں ۔ لہذا خون بیچنا گویا ایک جزء جسم سے فائدہ اٹھانا ہے اور یہ عند الفقہاء ممنوع ہے۔
فقہائے کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی انسان بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو رہا ہو اور اسے اعضاء جسم انسانی کے علاوہ کوئی دوسری ایسی چیز نہ مل رہی ہو جسے وہ کھاکر اپنی جان بچالے اس مجبوری کی حالت میں بھی وہ ہلاک ہونے والا انسان اپنے جسم کے کسی عضو یا کسی دوسرے کے عضو کو جان بچانے کے لیے نہیں کھا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ہلاک ہونے والے انسان کو اس کی جان بچانے کے لیے اسے اپنا عضو کاٹ کر دے سکتا ہے جب کہ جان بچانا فرض ہے ۔ تب بھی اجازت نہیں تو یہاں بیچنے کی کیسے اجازت مل سکتی ہے۔
فتاویٰ عالمگیری جلد پنجم ص: ٣٣٨/ میں ہے: "مضطر لم یجد میتة وخاف الھلاک فقال لہ رجل اقطع یدی وکلھا او قال اقطع منی قطعة وکلھا لا یسعہ ان یفعل ذلک ولایصح امرہ بہ کما لایسع للمضطر ان یقع قطعہ من نفسہ فیاکل کذا فی فتاوی قاضی خاں"۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی
0 Comments