زید کا انتقال ہو گیا اور اس کے بیٹے ہیں ، زید کی کچھ چھوڑی ہوئی زمین دیہات میں ہیں اور کچھ شہر میں ہیں ، زید کے دونوں بیٹوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ اس کا پورا حصہ شہر والی زمین کر دیا جائے ، اور دوسرا بیٹا شہر و دیہات دونوں جگہ اپنا حصہ مطالبہ کرتا ہے ،
دریافت طلب امر یہ کہ صورت مذکورہ میں دونوں زمین سے شہر والی زمین میں اپنا پورا حق مطالبہ کرنے کا مطالبہ پورا کیا جائے گا یا نہیں؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب دیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق و الصواب
صورت مسئولہ میں زید کے اس بیٹے کا مطالبہ جو شہر والی زمین میں اپنا پورا حق مطالبہ کر رہا ہے از روئے شرع پورا نہیں کیا جائے گا چونکہ زید کا دوسرا بیٹا اس پر راضی نہیں ہے ۔ تاہم گر معاملہ قاضی اسلام کی بارگاہ میں پہنچ جائے تو امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک قاضی علیحدہ ہی تقسیم کرے گا (یعنی شہر والی میں دونوں کو زمین دے گا اور دیہات والی زمین میں بھی دونوں کو حصہ دے گا) البتہ امام ابو یوسف اور امام محمد رحمھما اللہ کا کہنا ہے کہ قاضی اپنے حساب سے فیصلہ کرے گا گر اکٹھا تقسیم کرنے میں مصلحت ہوگی تو اکٹھا تقسیم کرے گا ورنہ علیحدہ تقسیم کرے گا، جیسا کہ فتاوی عالمگیری اور فتاوی قاضی خان کی عبارت سے واضح ہے۔
اذا مات الرجل و ترك أرضين أو دارين فطلب ورثته القسمة علي أن يأخذ كل واحد منهم نصيبه من كل الأرضين أو الدارين جازت القسمة و أن قال أحدهم للقاضي إجمع نصيبي من الدارين و الأرضين في دار واحدة و في أرض واحدة و أبي صاحبه قال أبو حنيفة رحمه الله تعالى يقسم القاضي كل دار و كل أرض علي حدة و لا يجمع نصيب أحدهم في دار واحدة و لا في أرض واحدة، و قال صاحباه الرائ للقاضي إن راي الجمع يجمع والا فلا (فتاوى عالمگیری جلد 5 ص 204 ،،، فتاوی قاضی خان جلد 3 ص 93)
هذاماظهر لي و علم الحق عند الله و هو اعلم بالصواب
كتبه:محمد يونس علي اشرفي جامعي
تخصص سال دوم ، جامع اشرف کچھوچھہ شریف
11 جمادی الاول 1444ھ 6 دسمبر 2022ء.
الجواب الصحیح: حضرت علامہ مفتی محمد شہاب الدین اشرفی جامعی، صدر شعبئہ افتاء جامع اشرف
0 Comments