مردوں کا اپنے گلے میں چاندی یا سونے کا چین پہننا کیسا ہے

سوال:

بہت سارے نوجوان مرد حضرات اپنے گلے میں چاندی کا چین پہنتے ہیں اور بعض جو امیر گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں وہ تو سونے کا بھی پہنتے ہیں ۔ تو کیا کسی مرد کے لیے سونا یا چاندی کا چین پہننا جائز ہے؟ اگر نہیں تو جوگ پہنتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ اور کچھ اسی کو پہن کر نماز بھی پڑھ لیتے ہیں تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

یہ دونوں چیزیں مرد حضرات کے لیے بالکل ناجائز و گناہ ہیں۔ مرد لوگوں کے لیے صرف چاندی کی ساڑھے چار ماشے (جس کا موجودہ وزن ہے۴/ گرام، ۳۷۴/ ملی گرام (4.374 gm ) اس سےکم ایک نگینے والی ، ایک انگوٹھی پہننا جائز ہے،اس کے علاوہ کسی قسم کا چاہے سونے کا ہو یا چاندی کا زیور پہننا مرد لوگوں کے لیے جائز نہیں ، لہذا ساڑھے چار ماشے وزن کی چاندی کی انگوٹھی یا ایک سے زائد انگوٹھیاں پہننا یا گلے میں چاندی یا سونے یا کسی بھی طرح کے زیور یا دھات کا چین پہننا مردوں کے لیے پہننا ناجائز و گناہ ہے اور اس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی و ناجائز وگناہ ہے ،اگر اس حالت میں (یعنی سونا یا چاندی کا چین پہن کر) نماز پڑھی تو نماز واجب الاعادہ ہوگی لہذا توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ، ان ناجائز چیزوں کو اتار کر نماز دوبارہ پڑھنا ہوگا ۔

ابن ماجہ شریف جلد چہارم ، ص: ١۵٧/ حدیث نمبر ٣۵٩۵/ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ میں سونا اور بائیں ہاتھ ریشم پکڑ کر ہاتھ بلند کر کے واضح الفاظ میں فرمایا کہ "یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پرحرام اور عورتوں کے لیے حلال ہیں"۔اور درمختار مع شامی میں ہے: (ولايتحلى) الرجل(بذهب وفضة) مطلقا (إلا بخاتم ومنطقة وحلية سيف منها) أي الفضة إذا لم يرد به التزين.(الدر المختار مع رد المحتار: جلد ششم ، ص: ٣۵٨)

اور عالمگیری میں ہے:

قال جماعۃ من العلماء رحمھم اللہ تعالی: ذكر في الجامع الصغير: وينبغي أن تكون فضة الخاتم المثقال، ولا يزاد عليه. وقيل: لا يبلغ به المثقال، وبه ورد الأثر، كذا في المحيط.(الفتاوی الھندیۃ جلد پنجم،ص: ٣۵۵)

ان ساری عبارات سے واضح ہوچکا کہ مرد کے لیے چاندی کی ساڑھے چار ماشے سے کم وزن کے نگینے والی ایک انگوٹھی کے سوا کسی بھی قسم کے زیور یا دھات کا چین ، انگوٹھی ، زنجیر اور چھلا کچھ بھی جائز نہیں۔

فقط وٙاللّٰهُ وٙرٙسُولُه اعلم۔

اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو عقل سلیم اور شریعت پسند مزاج عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے اور کرانے کی توفیق بخشے آمین ۔

کتبہ:محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

Post a Comment

0 Comments