غیر روزہ دار کا روزہ دار کے ساتھ افطار کرنا کیسا ہے

مسئلہ :

سوال یہ ہے کہ غیر روزہ دار کا روزہ دار کے ساتھ افطار کرنا کیسا ہے ؟ غیر روزہ دار کا شہر کے مختلف افطار پارٹیوں میں شریک ہو نا کیسا ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب

اللھم ھدایة الحق والصواب

روزہ دار اگر گھر میں افطار کر رہے ہیں اور وہاں کوئی غیر روزہ دار ان کے ساتھ شریک ہو رہا ہے تو یہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے عام ازیں شریک ہونے والے نے بلا عذر جان بوجھ کر روزہ چھوڑا ہو یا کسی عذر شرعی کے سبب دونوں صورتوں میں شریک ہوسکتا ہے ۔ امید کی جاتی ہے روزے داروں کی صحبت میں بیٹھنے کے سبب یہ بے روزے دار بھی وقت افطار کی سعاتوں سے فیضیاب ہوں گے جیساکہ نیک لوگوں کی صحبت کے حوالے سے بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے "هُمُ الجُلَسَاء لا يَشْقَى بهم جَلِيسُهُم"یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کے ساتھ بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا‘‘۔

اب رہی بات شہر کے مختلف افطار پارٹیوں میں غیر روزہ شریک ہوسکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر وہاں کا عرف یہ ہے کہ دعوتِ افطار پر عموما روزہ دار و غیر روزہ دار سبھی شرکت کرتےہیں اور دعوت کرنے والےکو کوٸی اعتراض نہیں ہوتا ہے تو ایسی صورت میں شہر کی افطار پارٹیوں میں غیر روزہ دار شریک ہوسکتاہے اس میں کوٸی قباحت نہیں ہے۔ خاص کر جو افطار پارٹیاں سیاسی لیڈروں کی جانب سے منعقد کی جاتی ہیں اس میں غیر روزہ دار بھی ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ دعوتیں عام ہوتی ہیں! مگر بہتر اور افضل و اولی یہی ہے کہ غیر روزہ دار نہ جاٸیں کیوں کہ افطار روزے دار کےلیے ہے نہ کہ غیرکےلیے۔ اور جہاں صرف اور صرف روزہ داروں کو ہی مدعو کیا جاۓ غیر کو نہیں! تو ایسی جگہ غیر روزہ دار کو جانا ناجاٸز ہے اور جاکے کھانا پینا بھی ناجاٸز اور ایسا شخص ذلیل وخوار بھی ہوجاتاہے! اور حدیث میں ایسے شخص کو چور اور ڈاکو کہاگیا ہے جیساکہ سنن ابی داٶد ، کتاب الاطعمة ، ص: ۵٢۵/ میں ہے:

عن عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما قال قال رسول الله ﷺ من دعي فلم يجب فقد عصى الله ورسوله  ومن دخل على غير دعوة دخل سارقا وخرج مغيرا.

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کو دعوت دی گئی اور اس نے قبول نہ کی تو اس نے اللہ اور رسول کو ناراض کیا اور جو بغیر دعوت کے شریک ہوا وہ چور کی طرح داخل ہوا اور ڈاکو کی شکل میں نکلا ۔ اور چور کی داخل اور ڈاکو کی طرح نکلنے کی وجہ اسی صفحہ کےحاشیہ نمبر ٦ پر یہ بتائی گئی ہے کہ"دخل سارقا لدخولہ بغیر اذن صاحب البیت وکانہ دخل خفیة و خرج مغیرا من الاغارة ان اکل عمل شیأ معہ لانہ کان بغیر اذن المالک کان فی حکم الغصب و الغارة"۔

یعنی صاحب خانہ کی اجازت کے بغیر داخل ہونے والا چور ہوتا ہے گویا کہ وہ بحیثیت چور داخل ہوا اور بحیثیت ڈاکو نکلتا ہے یہ حکم داخل ہونے پر ہے، ساتھ ہی اس نے کچھ کھایا پیا کیوں کہ وہ کھانا ، پینا صاحب خانہ کے حکم کے بغیر تھا تو وہ کھانا پینا ڈاکو کے غصب کرنے کی طرح ہوا ۔ پس اسی وجہ سے کہاگیا کہ وہ چور کی طرح داخل ہوا اور ڈاکو کی طرح نکلا ۔

اور یہی مفہوم فتاوی رضویہ جلد ١٦/جدید ، ص: ۴٨٧/ کی درج ذیل عبارت سے بھی ہوتا ہے:

"افطاری میں غیر روزہ دار اگر روزہ دار بن کر شریک ہوتے ہیں متولیوں پر الزام نہیں۔ بہتیرے غنی فقیر بن کر بھیک مانگتے اور زکوٰۃ لیتے ہیں دینے والے کی زکوٰہ ادا ہوجائے گی کہ ظاہر پر حکم ہے اورلینے والے کو حرام قطعی ہے یونہی یہاں ان غیر روزہ داروں کو اس کاکھانا حرام ہے۔ وقف کا مال مثل مال یتیم ہے جسے ناحق کھانے پر فرمایا: (اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَ سَیَصۡلَوۡنَ  سَعِیۡرًا) ترجمہ : اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور عنقریب جہنم میں جائیں گے. (القرآن الکریم ، پارہ ۴، آیت: ١٠)

فتاوی رضویہ کی مذکورہ عبارت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جہاں جس شہر کا یہ عرف وہاں مساجد میں جو افطاری بھیجی جاتی ہیں وہ روزہ دار و غیر روزہ دار سب کے لیے تو ایسی مساجد میں غیر روزہ دار مساجد میں روزے داروں افطار میں شریک ہوسکتا ہے مگر شریک نہ ہونا افضل ہے اور جہاں یہ عرف ہو وہاں مساجد میں جو افطاری بھیجی جاتی ہیں وہ فقط روزے دار کے لیے تو ایسی مساجد میں غیر روزہ دار کا روزے دار کے ساتھ افطاری کرنا ناجائز وحرام ہے اس لیے کہ ایسی صورت میں یہ افطاریاں فقط روزے داروں کے لیے وقف ہوجاتی ہیں جو حکما مال یتیم کی طرح ہے جسے لہذا اسے غیر روزہ دار نہیں کھا سکتا ۔

اور فیضان علوم جلد دوم ، ص: ٣٠٨/ میں ہے کہ : البتہ اگر کسی مسجد یا علاقے کا عرف یہی ہو کہ روزہ دار اور غیر روزہ دار دونوں کو افطاری کھلاتے ہیں تو وہاں غیر روزہ دار کو بھی اجازت ہوگی"_ فقط واللہ ورسولہ اعلم 

کتبہ: العبد الفقیر الی ربہ القدیر محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی غفرلہ

Post a Comment

0 Comments