امام احمد رضا بحیثیت محتاط مفتی۔۔۔چند جھلکیاں فتاوی رضویہ کے آئینے میں

حقائق نامہ قسط اول


امام احمد رضا کا نام لیکر تشدد کا بازار گرم کرنے والے فسادی عناصر اور گستاخان رسول یا گستاخان رسول کی پشت پناہی کرنے والے بد طینت اور مادیت پسند افراد یا تو اعلی حضرت کو پڑھتے ہی نہیں یا پڑھتے ہیں تو خیانت سے کام لیتے ہیں۔

بات بات پر تفسیق اور تضلیل و تکفیر نہ تو رضوی تعلیمات کا حصہ ہے اور نہ ہی فکر رضا کااس سے کوئی تعلق۔۔۔۔امام اہل سنت سیدی اعلی حضرت مسئلۂ تضلیل و تکفیر میں کس قدر محتاط تھے آپ مندرجہ ذیل اقتباس سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔

آپ فتاویٰ رضویہ میں رقمطراز ہیں"کسی مسلمان کی تکفیر ایک امر عظیم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی بھی کلمہ گو کی تکفیر سے منع فرمایا ہے جب تک وجہ کفر آفتاب زیادہ سے زیادہ روشن نہ ہوجائے اور حکم اسلام کے لیے کوئی ضعیف سا ضعیف محمل بھی باقی نہ رہے۔ (فتاویٰ رضویہ , جلد :18,ص:320,امام احمد رضا اکیڈمی)

ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں"کسی کے قول یا فعل یا حال میں اللہ و رسول کا انکار یا تکذیب یا توہین کی وجہ سے کب تکفیر کی جائے گی۔ اس میں دو مذہب ہیں: ایک محققین فقہا اور متکلمین کا مذہب اور دوسرا جمہور فقہا کا مذہب,اول کو التزام کفر یا کفر کلامی کہا جاتا ہے اور دوم کو لزوم کفر یا کفر فقہی"(  ملخصا,فتاویٰ رضویہ ,جلد:20,ص:173,امام احمد رضا الیڈمی) راجح اور احوط مذہب متکلمین ہے کہ جب تک التزام کی صورت نہ ہو قائل کو کافر کہنے سے سکوت کیا جائے گا۔(فتاویٰ رضویہ مترجم,جلد:1,ص:180 اور 181)

اس اجمال کی قدرے توضیح یہ ہے کہ کسی مسلمان کے قول,فعل یا حال کے سبب اس کی تکفیر کرنے سے متعلق دو مذہب ہیں۔ ایک محققین فقہا اور متکلمین کا مذہب کہ یہ حضرات اسی وقت تکفیر کو روا رکھتے ہیں جب کوئی ضروریات دین میں سے کسی امر ضروری کا انکار کرے یا اس میں ادنی شک و شبہ کو جائز رکھے یا اس میں باطل تاویلات کو راہ دے۔ورنہ اگر مسلۂ ضروریات دین سے نہیں ہے تو یہ حضرات تکفیر سے کف لسان اور سکوت فرماتے ہیں اگرچہ وہ مسئلہ قطعی ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مذہب جمہور فقہا کا ہے: یہ حضرات کسی امر قطعی یقینی کے منکر کی بھی تکفیر کرتے ہیں اگرچہ مسئلہ ضروریات دین سے نہ ہو۔

امام اہل سنت ان دونوں مذاہب کو بیان فرماکر لکھتے ہیں کہ احوط مذہب متکلمین ہی ہے یعنی اس وقت تک کسی بھی کلمہ گو کی تکفیر سے سکوت اختیار کیا جائے جب تک اس سے کسی امر ضروری دینی کا انکار یا اس میں شک و شبہ یا بیجا تاویل متعین طور پر ثابت نہ ہوجائے۔

ذراغور فرمائیں کہ جب امام اہل سنت مذہب متکلمین کو احوط فرما رہے ہیں اور وہی آپ کا مختار ہے تو ان کا نام لیکر معمولی سی معمولی بات پر کسی مسلمان کی تفسیق و تضلیل بلکہ تکفیر کی جرات کرنا کہاں تک صحیح ہے؟؟

نیز اس سے یہ بھی طشت از بام ہوجاتا ہے کہ اہل دیوبند , حامیان اہل دیوبند اور دیگر فرق باطلہ کے اس الزام کی حیثیت خاشاک کے تودے سے کچھ زیادہ نہیں  کہ امام احمد رضا نے عناصر اربعہ کی تکفیر کے معاملے میں بے احتیاطی سے کام لی اور بلاوجہ امت میں افتراق و انتشار کو فروغ دیا۔ یقینا یہ تودۂ خاشاک(الزام) حقیقت و صداقت اور واقعیت کے سیل رواں کے آگے چند لمحے بھی ٹکنے اور ٹھرنے کی صلاحیت  اور سکت نہیں رکھتا۔

اللہ انھیں گوش شنوا اور چشم بینا عطا فرمائے کہ تعصب کا دامن چھوڑ کر حق سنیں,حق سمجھیں اور حق ہی کی تشہیر کریں۔آمین

ازقلم: سرور مصباحی,اتر دیناج پور

جاری

Post a Comment

0 Comments