امام احمد رضا بحیثیت محتاط مفتی، چند جھلکیاں فتاوی رضویہ کے آئینے میں

قسط دوم

اس سلسلے کا پہلا مسئلہ, مسلۂ تکفیر اجمالا بیان ہو چکا۔اس کی دوسری کڑی مسئلۂ مزارات اولیا ہے۔

ان دنوں مزارات میں ہونے والی خرافات,بدعات,تماشے اور بے حیائیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ سیم و زر پرست اور دولت و ثروت پسند مجاوروں نے اپنی  گند سے ان مقدس مقامات کی فضا متعفن کر رکھی ہے۔مال و منال کی خاطر مکروہ سے لیکر حرام بلکہ شرکیہ افعال تک یہ کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام سے کراتے ہیں اور ذرا بھی خوف خدا محسوس نہیں کرتے ۔

ادھر عوام اہل سنت بلکہ پڑھے لکھے افراد بھی مزارات کے تقدس کو پامال کرنے میں کوئی فرو گذاشت نہیں چھوڑتے۔اس سلسلے میں ان سے انجام پانے والے غیر شرعی امور کو اگر مفصلا لکھا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوجائے,تاہم عورتوں کا  مزارات پر حاضر ہونا ,مردوں سے ان کا اختلاط، عریانیت و فحاشی, مقابر شریفہ سے لپٹ جانا,ان کا طواف کرنا,العیاذ باللہ سجدہ کرنا,یہ ایسی خرافات ہیں جو ان میں سر فہرست ہیں۔

کچھ تعصب پرست عناصر جاہل و ناخواندہ مجاوروں اور عوام الناس کی ان خرافات و بدعات کو لیکر امام احمد رضا رحمہ اللہ پر نشانہ سادھتے ہیں کہ یہ سب ان کی تعلیمات کا  ثمرہ و نتیجہ ہیں حالاں کہ امام اہل سنت قدس سرہ کی حیات مستعارکا ایک ایک لمحہ رد بدعات میں صرف ہوا ہے۔آپ نے خاص مزارات پر عورتوں کی حاضری کی ممانعت سے متعلق "جمل النور فی نھی النساء عن زیارۃ القبور"اور سجدۂ تعظیمی کی حرمت پر "الزبدۃ الزکیہ فی تحریم سجود التحیۃ" جیسے گراں قدر اور تحقیقی رسالے تحریر فرمائے ہیں اور قبرستان میں ہونے والی دیگر خرافات کا جا بجا اپنے فتاویٰ میں رد بلیغ فرمایا ہے۔

مزارات اولیا سے متعلق آپ کس قدر محتاط تھے فتاویٰ رضویہ کی مندرجہ ذیل عبارتوں سے خوب خوب عیاں ہوجاتا ہے۔

آپ فرماتے ہیں: مزارات کا طواف جو محض بنیت تعظیم کیا جائے نا جائز ہے کہ تعظیم بالطواف محض بخانۂ کعبہ ہے مزار کو بوسہ نہ دینا چاہیے علما اس میں مختلف ہیں اور بہتر بچنا ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے (فتاویٰ رضویہ۔کتاب الجنائز۔باب احوال قرب موت؛ج ٧؛ص٣٣)

ایک دوسرے مقام پر رقمطراز ہیں: جب مزار پر چادر موجود ہو اور وہ ابھی پرانی یا خراب نہ ہوئی ہو کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام (مال) اس میں صرف کرے ولی اللہ کی روح کو ایصال ثواب کے لیے کسی محتاج کو دیدیں(فتاویٰ رضویہ:باب الحج؛ج ٧ ؛ص ٦٠٤۔رسالہ:انوار البشارہ فی مسائل الحج والزیارہ۔)

فرضی مزار سے متعلق ارشاد فرماتے ہیں: فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل جیسا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہ (فتاویٰ رضویہ ؛کتاب الجنائز؛باب احوال قرب موت؛ج ٧؛ص؛٢٥٢)

غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے, اس کے متعلق فرماتے ہیں:غیر خدا کو سجدۂ عبادت شرک ہے سجدۂ تعظیمی شرک نہیں مگر حرام ہے گناہ کبیرہ ہے متواتر حدیثیں  اور متواتر نصوصِ فقہیہ سے اسکی حرمت ثابت ہے ہم نے اپنے فتاویٰ میں اسکی حرمت پر چالیس حدیثیں روایت کیں اور نصوص فقہیہ کی گنتی نہیں فتاویٰ عزیزیہ میں ہے کہ اسکی حرمت پر اجماع امت ہے (فتاویٰ رضویہ:کتاب الحظر والاباحت؛ج ١٥ ؛ص ٤٩١)

مزارات پر عورتوں کی حاضری کو بعض علما نے کچھ شرائط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے جبکہ دیگر علما نے فتنے کے خوف کے سبب مطلقا ممانعت کا قول کیا ہے۔امام اہل سنت قدس سرہ نے اسی قول اخیر احوط کو اختیار فرمایا ہے۔چنانچہ ایک جگہ غنیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں۔ سوائے روضہ رسولﷺ کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا (ملفوظات شریف ص 240‘ ملخصاً رضوی کتاب گھر دہلی,رسالہ جمل النور الخ۔۔۔)

مزارات پر حاضری کا صحیح اور محتاط طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مزارات ِشریفہ پر  حاضرہونے میں پائنتی کی طرف سے جائے اور کم ازکم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز بادب عرض کرے ’’السّلام علیک یا سیدی ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ ‘‘ پھر درود غوثیہ تین بار، الحمد شریف ایک ، آیۃ الکرسی ایک بار، سورہ اخلاص سات بار، پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے ، تو سورہ یٰسں او رسورہ ملک بھی پڑھ کر اللہ عزوجل سے دعا کرے کہ الہی ! اس قراءت  پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے، نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے او راسے میری طرف سے اس بندۂ مقبول کو نذر پہنچا، پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو ا س کے لیے دعا کرے اورصاحب مزار کی روح کو اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قراردے ، پھر اُسی طرح سلام کرکے واپس آئے، مزار کو نہ ہاتھ لگائے، نہ بوسہ دے اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔ “(فتاوی رضویہ  ، جلد  9، صفحہ  522)

تعصب کی عینک اتار کر انصاف کی آنکھوں سے جو ان عبارتوں کا مطالعہ کرے وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مزارات کی مروجہ رسومات اور ان میں ہونے والی خرافات و بدعات امام احمد رضا رحمہ اللہ کے فرامین و ارشادات کے متعارض و متناقض ہیں چہ جائیکہ ان کی تعلیمات سے ہوں۔

اللہ عوام اہل سنت اور ان متعصبین دونوں کی اصلاح فرمائے ۔ آمین

ازقلم : سرور مصباحی اتر دیناج پور,بنگال

*جاری*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments