سوال:
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
مفتی صاحب قبلہ! عرض ہے کہ کیا اللہ کے لیے"بھگوان"
لفظ استعمال درست ہے؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی ۔
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
ہرگز جائز نہیں ! بلکہ اس لفظ کےحقیقی معنی کو جانتے ہوئے اللہ تعالی کے لیے اس لفظ کو بولنا کفر ہے۔ واضح رہے کہ کسی بھی زبان سے تعلق رکھنے والا شخص اگر ایسا لفظ بولے جو معبود حقیقی کی نشاندہی کرتا ہے اس لفظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پکارنا درست ہے جیسے خدا، ایزد، یزداں، وغیرہ۔ لیکن وہ لفظ جو کسی قوم کا شعار بن چکا ہو اور اس سے اس قوم کی پہچان ہو ، جیسے لفظ بھگوان ، پرماتما کہ اگرچہ اس سے صاحب لسان کا اللہ ہی کو پکارنا ہو، لیکن ان کا یہ شعار بن چکا ہے، لہٰذا اس لفظ سے خدائے تعالی کو پکارنا جائز نہیں بلکہ اگر کوئی لفظ بھگوان کے حقیقی معنی (یعنی عورت کی شرم گاہ والا) اس سے واقف ہونے کے باوجود بھی اگر اللہ تعالی کو بھگوان کہے گا وہ اسلام سے خارج ہوجائے گا ، شادی شدہ ہوگا تو اس۔کی بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی اور کسی شیخ کامل سے مرید ہو تو اس کی وہ بیعت بھی ختم ہوجائے گی، اس پر لازم ہے کہ فوراً سچی توبہ کرکے تجدید ایمان و نکاح اور بیعت کرے۔ قرآن مقدسہ میں ہے: اَلَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْۤ اَسْمَآىٕهٖ : یعنی جو اس کے ناموں میں حق سے دور ہوتے ہیں۔ اس کی تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:
"اللہ تعالیٰ کے ناموں میں حق و اِستقامت سے دور ہونا کئی طرح سے ہے ایک تو یہ ہے کہ اس کے ناموں کو کچھ بگاڑ کر غیروں پر اِطلاق کرنا جیسا کہ مشرکین نے اِلٰہ کا’’ لات‘‘ اور عزیز کا’’ عُزّیٰ‘‘ اور منان کا ’’مَنات‘‘ کرکے اپنے بتوں کے نام رکھے تھے، یہ ناموں میں حق سے تَجاوُز اور ناجائز ہے۔ دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایسا نام مقرر کیا جائے جو قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو یہ بھی جائز نہیں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کو سخی کہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اَسماء تَوقِیفیہ ہیں۔ تیسرا یہ کہ حسنِ ادب کی رعایت نہ کرنا ۔ چوتھا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی ایسا نام مقرر کیا جائے جس کے معنی فاسد ہوں یہ بھی بہت سخت ناجائز ہے ،جیسے کہ لفظ رام اور پرماتما وغیرہ۔ پانچواں یہ کہ ایسے اسماء کا اطلاق کرنا جن کے معنی معلوم نہیں ہیں اور یہ نہیں جانا جاسکتا کہ وہ جلالِ الہٰی کے لائق ہیں یا نہیں۔( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۱۸۰، ۲ / ۱٦۴)
علما و فقہا کرام رحمھم اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین فرماتے ہیں: بھگوان کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لیے ہر گز استعمال نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالی کا یہ نام قرآن واحادیث میں نہیں ہے اور یہ مشرکوں کی بولی ہےلہذا بھگوان کہنے سے پرہیز کریں کہ از روئے شرع اللہ تعالیٰ کے لیے اس طرح کے الفاظ کا استعمال سخت منع ہے ) پربھو اللہ تعالی کانام نہیں اس لئے اللہ تعالی کو پربھو کہنا منع ہے۔ جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ: سورہ اعراف کی مذکورہ کے تحت فرماتے ہیں:"رام یا پربھو نہیں کہہ سکتے"۔ (نورالعرفان ص: ٢٧٦)
اور ٹھیک اسی طرح کا ایک سوال ہوا شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے ہوا تو آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب تفصیل کے ساتھ یوں رقم فرماتے ہیں کہ: "بھگوان اور رام کے جو حقیقی معنی ہیں ان پر مطلع ہوتے ہوئے جو شخص الله عزوجل کو بھگوان یا رام کہے وہ بلا شبہہ کافر و مرتد ہے, اس کے تمام اعمال حسنہ اکارت ہوگئے اس کی بیوی اس کے نکاح سے نکل گئ, اس پر فرض ہے کی فوراً اس سے توبہ کرے پھر سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو اور اپنی بیوی کو رکھنا چاہتا ہے تو پھر سے تجدید نکاح کرے. سنسکرت میـں بھگ عورت کی شرم گاہ کو کہتے ہیں, اور وان معنی والا. رام کے معنی رما ہوا یعنی کسی میـں گھسا ہوا ہے یہ دونوں معنی الله عزوجل کے لیے عیب اور اس کو مستلزم ہیــں کہ وہ خدا نہ ہو اس لیے دونوں الفاظ کا اطلاق اللہ عزوجل پر کفر ہے ۔ رہ گئے وہ لوگ جو اس کے حقیقی معنی نہیں جانتے وہ صرف اتنا جانتےہیں کہ ہندوؤں میـں الله عزوجل کو بھگوان یا رام کہا جاتا ہے . انھوں نے اگر الله عزوجل کو بھگوان یا رام کہا تو ان کا حکم اتنا سخت نہیں پھر بھی ان پر توبہ و تجدید ایمان و نکاح لازم ہے،خواہ ایک شخص کہے یا سب لوگ کہیں ، بے علم عوام کے کہنے سے کوئی کفر اسلام نہیں ہوجائےگا ، ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ ایمان و کفر جانے بے علمی عذر نہیں ہو سکتی، جن جن لوگوں نے اللّه عزوجل کو بھگوان یا رام کہا بہرحال ، ان پر توبہ و تجدیدِ ایمان و نکاح لازم ہے ، خواہ وہ بھگوان یا رام کے حقیقی معنی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں ۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد اول ، ص: ۱۷۱ تا ۱۷۲)
اور آگے شارح بخاری لکھتے ہیں کہ :
"الله عزوجل کو بھگوان کہنا کفر ہے ، کہنے والے پر تجدیدِ ایمان اور نکاح لازم ہے ایشور کہنا بھی جائز نہیں ’ یہ ہندوؤں کا شعار ہے ہندوؤں نے بہت سے الفاظ خاص کیے ہیں, ان میں کُچھ کفر ہیــں حرام سبھی ہیــں."
(فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ ۲۴٦) اس کے علاوہ اللہ کے لیے دوسرے مذاہب میں رائج الفاظ سے گریز کرنا چاہیے بالخصوص جبکہ غیراللہ پر بھی ان کے یہاں اس لفظ کے استعمال کا رواج ہو، جیسے غیر مسلم اللہ کے علاوہ پر بھی بھگوان کا اطلاق کردیتے ہیں اور بھگوان کرشن اور بھگوان رام کہنا ان کے یہاں رائج ہے ۔ پس ان ساری عبارات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالی کے لیے"بھگوان" لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ۔
واللہ تعالیٰ ورسولہ الاعلی اعلم بالصواب.
کتبہ محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی غفرلہ
خادم التدریس والافتا: دارالعلوم اشرفیہ شیخ الاسلام و مرکزی دارالافتا وخطیب وامام گلشن مدینہ مسجد ۔ واگرہ ، بھروچ ، گجرات۔
,٢۵/ ذیقعدہ ١۴۴۴ ہجری ۔ ١۵/جون ٢٠٢٣ عیسوی بروز جمعرات
0 Comments