السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام کہ دور حاضر میں جو لوگ اپنے زور و جواہرات کو بندھک کے طور پر سنار کو دیتے ہیں اور اس کے عوض پیسہ لیتے ہیں جو سونار پیسہ دیتا ہے زیور لے کر بیاض کے ساتھ پیسہ زیادہ بھی لیتے ہیں تو کیا یہ پیسہ بیاض میں شمار ہوگا یا نہیں؟ اورغیر مسلم كو سونا چاندی بندھک دینا جائز ہے يا نہیں؟ برائے کرم مدلل جواب سے نوازے ۔
الجواب بعون الملک الوھاب
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ سونا وغیرہ گروی (بندھک) رکھ کر اس کے عوض سود پر پیسہ لینا یہ بالکل شرع کے خلاف اور ناجائز و حرام ہے ۔جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح بے وجہ شرعی سود دینا بھی حرام ۔
کما قال رسولﷺ "الراشی و المرتشی کلاھما فی النار"۔
یعنی سود دینے والا اور سود لینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔
اور مسلم شریف کی حدیث میں ہے: "لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموٴکلہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال: ھم سواء"۔یعنی اللہ کے رسول ﷺ نے سود کھانے والے ، اس کی وکالت کرنےوالے ، اس کی دستاویزات لکھنے والے، اس کا گواہ بننے والے سب پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ (گناہ میں) سب برابر کے شریک ہیں ۔
الأشباہ والنظائر ، ص: ١٣٢/ میں ہے: "ماحرم أخذہ حرم إعطاءہ کالربا"۔ فتاوی شامی ، جلد پنجم میں ہے: "کل قرض جر نفعًا حرام أي إذا کان مشروطًا"۔
حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں ہے: "الربا ھوالقرض علی أن یؤدي إلیہ أکثر أو أفضل مما أخذ"۔
اعلاء السنن ، کتاب الحوالة باب کل قرض جر منفعة میں ہے:
"قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادةً أو هديةً فأسلف علی ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا".
اسی إعلاء السنن / رسالۃ کشف الدجی علی حرمۃ الربوا"۔ میں ہے: "کل قرض شرط فیہ الزیادۃ فھو حرام بلا خلاف… الفضل الشروط في القرض ربا محرم لا یجوز للمسلم من أخیہ المسلم أبدًا ، لإجماع المجتھدین علی حرمتہ"۔
ان ساری مذکورہ عبارات سے واضح ہوچکا کہ بینک سے قرض لے کر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ سود ہے ، جس کا لینا ، دینا شرعٙٙا ناجائز اور حرام ہے۔ہاں! اگر کوئی یہ کہے کہ ہم یہ سودی پر قرض مجبوری اور ضرورت کی وجہ سے لے رہے ہیں تو اس سے یہی کہا جائے کہ یہاں شرعی ضرورت متحقق نہیں ہو پا رہی ہے اس لیے کہ ضرورت کہتے ہیں ایسی شدید ترین مشقت جس کے ازالہ کے لیے کوئی سہارا نہ ہو۔ جیساکہ لغة الفقھاء ، ص: ٢٨٣/ میں ہے: الضرورۃ الحاجة الشدیدۃ والمشقۃ والشدۃ التي لا مدفع لھا"۔یعنی ضرورت نام ہے حاجت شدیدہ کا اور ایسی مشقت وپریشانی کا جس کے دفعیہ کے لیے کوئی سہارا نہ ہو۔اور ’’قواعد الفقہ‘‘ میں لکھا ہے: کہ ضرورت ضرر سے مشتق ہے، اس کے معنی ایسی مصیبت اور پریشانی میں مبتلا ہوجانا جس کے دفعیہ کے لیے کوئی چارۂ کار نہ ہو۔اور یہاں یہ صورت نہیں پاجائی جاتی اس لیے کہ یہاں سامان بندھک میں نہ رکھ کر اس سامان کا کچھ حصہ بیچ کر اپنی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے ۔
اور جہاں ضرورت واقعی متحقق ہو تو وہاں سود پر قرض لینا جائز ہے جیسا کہ اصول فقہ کا معروف و مشہور قاعدہ ہے:"یجوز للمحتاج الاستقراض بالربح"۔یعنی حاجت مند کے لیے زیادتی(سود) کے ساتھ قرض لینا جائز ہے۔
فقط واللہ تعالیٰ ورسولہ الاعلی اعلم۔
کتبہ: محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی عفی عنہ
0 Comments