سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ (۱): عید الاضحی کی نماز سے قبل شیریں چیز کھانا کیساl ہے۔ گزشتہ جمعہ کو جامع مسجد میں مولوی امام صاحب نے اعلان فرمایا تھا کہ عید الاضحی کی نماز کے قبل شیریں چیز کھانا اچھا ہے، اس لیے کہ اس دن پر شیطان روزہ رکھتا ہے۔ (۲) سوال دیگر یہ ہے کہ جو صاحب کہ قربانی کرتے ہیں، ان کے لئے یہ قید لگا دی گئی ہے کہ بال نہیں منڈوانا چاہئے یہ قید غلط ہے، بلکہ منڈوانا درست ہے؟ جواب حوالہ سے عنایت فرما ئیں؟
الجواب:
(۱)عید اضحی کے دن روزہ رکھنا شرعا منع ہے۔ صبح صادق سے غروب تک کھانا پینا جماع وغیرہ سے بقصدِ روزه باز رہنے کا نام روزہ ہے۔ اگر کوئی شخص صبح صادق سے صرف نماز عید الاضحی تک ان امور سے احتراز کرے اور باز رہے اور بعد نماز کھائے تو اس شخص کو شرعا صائم اور روزہ دار نہیں کہا جاسکتا۔ شریعت طاہرہ نے عید الاضحی کے دن نماز عید سے قبل کھانے پینے وغیرہ سے رکے رہنے کو مستحب قرار دیا ہے، اس کو روزہ قرار دیکر منع کرنا صحیح و درست نہیں ، بلکہ منع کرنے والا امر مستحب کو روکنے والا قرار پائے گا۔ مراقی الفلاح مصری ص ۳۲۲ میں ہے۔
(وأحكـام) عيد (الاضحى كالفطر) وقد علمتها (لكنه فى الاضحى يؤخر الاكل عن الصلاة استحبابا فان قدمه لا يكره فى المختار لأنه عليه الصلاة والسلام كان لا يطعم فى يوم الاضحى حتى يرجع فياكل من اضحيته.
عید اضحی کے احکام عید الفطر کی طرح ہے۔ عید اضحی میں کھانے کو نماز پر مؤخر کیا جاتا ہے۔ ایسا کرنا مستحب ہے اگر نماز سے پہلے کھالیا تو مکر وہ بھی نہیں۔ مذہب مختار یہی ہے۔ کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام جب نماز سے واپس آتے تو اپنی قربانی کا گوشت کھاتے تھے۔طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے۔
قوله:(يرخر الاكل عن الصلوة) وكذا كل ما ينافى الصوم من صبحه الى ان يصلى وقد تواردت الاخبار عن الصحابة رضى الله تعالى عنهم فى منع الصبيان عن الاكل والاطفال عن الرضاع غداةالاضحى كمافى الزاهدى وفيه رمزالى ان هذا الامساك ليس بصوم ولذا لم يشترط له النية.
ان کا قول ( کھانے کو نماز پر مؤخر کیا جائے گا ) اسی طرح ہر اس عمل کو مؤخر کیا جائے گا جو روزہ توڑنے والا ہے۔ یہ تاخیر صبح سے لیکر نماز بقرعید ہونے تک ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے متواتر خبریں منقول ہوئیں کہ یہ حضرات بقرعید کی صبح بچوں کو کھانے اور دودھ پیتوں کو دودھ پینے سے روکتے تھے۔ جیسا کہ الزاہدی کے اندر ہے۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ امساک روزہ نہیں ہے۔ اسی لئے اس میں نیت شرط نہیں۔
ان عبارات منقولہ سے ظاہر ہوا کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عید اضحی کے دن قبل نماز عید اضحی کچھ نہ کھاتے پیتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم تو اپنے نابالغ بچوں کو بھی کھانے پینے سے روکتے تھے حتی کہ شیر خوار بچوں کو بھی دودھ پینے سے منع کرتے تھے اور یہ روزہ نہیں ہے۔ اسی لئے اس میں نیت شرط نہیں قراردی گئی۔ واللہ تعالی اعلم
(۲) سرکار مکہ تاجدار مدینہ علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم ہے کہ جو شخص قربانی کا ارادہ کرے اس کے لئے مستحب ہے کہ وہ پہلی ذی الحجہ سے دسویں ذی الحجہ تک حجامت نہ بنوائے ، ناخن نہ تر شوائے ۔ جو شخص اس مستحب کو غلط بتائے وہ خود سراپا غلط ہے کہ بے علم ہونے کے باوجود مسائل شرعیہ میں اپنی رائے سے حکم لگا دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لئے حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ ردالمختار جلد مصری ص ۶۲۱ میں ہے۔ ورد في صحیح مسلم قال رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم اذا دخل العشر واراد بعضكم ان يضحى فلا ياخذن شعرا ولايقلمن ظفرا فهذا محمول على الندب دون الوجوب بالاجماع. مسلم شریف میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو جسے قربانی کرنا ہے وہ بال نہ بنوائے ، ناخن نہ ترشوائے ۔ یہ مستحب ہے، واجب نہیں۔ واللہ تعالی اعلم.
0 Comments