قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئے

قربانی دین کا ایک اہم شعیرہ اور تقرب الی اللہ کا بہت بڑا ذریعہ ہے ، اسکی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں متعدد جگہ اسکا ذکر نماز کے ساتھ ہوا ہے ۔ ’’فصل لربک وانحر ‘‘ ۔ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر ۔ { قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَاي وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} (سورة الأنعام 162)” آپ کہہ دیں کہ میری نماز ، میری قربانی ، میرا مرنا اور جینا اللہ رب العالمین کے لئے ہے.

نبی کریم صلى الله عليه وسلم اپنے دس سالہ قیام مدینہ منورہ میں اس عبادت کا بڑا اہتمام کرتے تھے ، آپ خود بھی قربانی کرتے ، قربانی پر لوگوں کو ابھارتے مسلمانوں میں قربانی کے جانور تقسیم فرماتے قربانی کے کئے عمدہ سے عمدہ جانوروں کے انتخاب کا حکم دیتے اور خود بھی عمدہ اور اچھا جانور ذبح فرماتے ۔

ابو امامہ بن سہیل نامی ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مدینہ منورہ میں اپنے قربانی کے جانوروں کو کھلا پلا کر موٹا و تندرست کرتے تھے ۔[صحیح البخاری ۔کتاب الأضاحی ]

قربانی کا جانور موٹا تازہ ہو اور بے عیب دار ہونا ضروری ہے۔

قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئے
قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہئے


عیب دار جانوروں کی تفصیل جن سے قربانی نہیں ہوتی ہے

ایسا پاگل جانور جو چَرتا نہ ہو ، اتنا کمزور کہ ہڈّیوں میں مَغْز نہ رہا،( اس کی علامت یہ ہے کہ وہ دُبلے پن کی وجہ سے کھڑا نہ ہو سکے)اندھا یا ایسا کانا جس کا کاناپن ظاہِر ہو ، ایسا بیمار جس کی بیماری ظاہِر ہو ،(یعنی جو بیماری کی وجہ سے چارہ نہ کھائے)ایسا لنگڑا جو خود اپنے پاؤں سے قُربان گاہ تک نہ جاسکے ، جس کے پیدائشی کان نہ ہوں یا ایک کان نہ ہو،وحشی(یعنی جنگلی) جانور جیسے نِیل گائے ، جنگلی بکرایا خُنثیٰ جانور ( یعنی جس میں نر و مادہ دونوں کی علامتیں ہوں ) یا جَلّالہ جو صِرف غلیظ کھاتا ہو۔یا جس کا ایک پاؤں کاٹ لیا گیا ہو، کان،دُم یاچَکّی ایک تہائی (3 / 1)سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں ناک کٹی ہوئی ہو ، دانت نہ ہوں (یعنی جَھڑ گئے ہوں ) ، تھن کٹے ہوئے ہوں ، یا خشک ہوں ان سب کی قربانی نا جائز ہے۔ بکری میں ایک تھن کا خشک ہونا اورگائے، بھینس میں دو کا خشک ہونا، ’’ناجائز‘‘ ہونے کیلئے کافی ہے،جس کے پیدائشی سینگ نہ ہوں اُس کی قربانی جائز ہے ۔اور اگر سینگ تھے مگرٹوٹ گئے،اگر جڑ سمیت ٹوٹے ہیں تو قربانی نہ ہوگی اور صرف اوپر سے ٹوٹے ہیں جڑ سلامت ہے تو ہوجائے گی،جانور کو کتے نے کاٹ لیااور وہ زخم گٹھلی کی شکل اختیار کر لیا یا اس جگہ دوسرے بال نہ جمے تو اس کی قربانی ناجائز، جانور کو جِلدی بیماری ہو اور اس کا اثر گوشت تک پہنچ گیا تو اس کی قربانی صحیح نہیں،جانور کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے سارے دانت گر گئے اور وہ اچھی طرح گاس وغیرہ نہیں کھا سکتا تو اس کی قربانی درست نہیں۔(ماخوذ ردالمحتار،فتاوی عالمگیری،بحرالرائق،فتاوی فقیہ ملت)

حاصل کلام: قربانی ایک اہم عبادت اور اسلام کا شعار ہے اور یہ وہ عمل ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔اسی لیے صحت مند اور بے عیب جانور کی قربانی دینی چاہیے۔اور مذکورہ عیوب کا جاننا ہمارے لیے ضروری ہے جن سے قربانی نہیں ہوتی۔

جس طرح تقویٰ اور خالص رضائے الٰہی قربانی کی قبولیت کی اہم شرط ہے، اسی طرح جانور کا مذکورہ عیوب سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔

از قلم: محمد صابر رضا اشرفی علائی

رسرچ اسکالر: مخدوم اشرف مشن پنڈوہ شریف مالدہ بنگال

Post a Comment

0 Comments