السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔ علماء کرام و مفتیان عظام کی بارگاہ میں دریافت یہ کہ جو اذان دیوبندیوں کی مسجدوں میں ہوتی ہے اس کا جواب دینا واجب ہے یا نہیں؟۔
وعلیکم السلام و رحمة اللہ وبرکاته ۔ الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ھداة الحق و الصواب۔
اجمالی جواب :
محلے کی چند مسجدوں میں سے جس مسجد کی اذان پہلے ہو اس کا جواب دینا واجب ہے اگرچہ وہ مسجد دیوبندیوں کی ہو ۔ شرط یہ ہے کہ وقت کے اندر اذان ہو ، جو اذان وقت سے پہلے ہو اس کا اعتبار نہیں ۔
تفصیلی جواب :
اذان کا جواب دینا واجب ہونے کے لیے اذان کا درست ہونا ضروری ہے ، اذان اگر درست ہو تو اس کا جواب دینا بھی واجب ہوگا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کا اذان دینا درست ہے اورکس کا غلط ۔ علامہ ابن عابدین شامی "رد المحتار" کے اندر ( يعاد أذان كافر وفاسق) کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں "ذِكْرُ الْفَاسِقِ هُنَا غَيْرُ مُنَاسِبٍ؛ لِأَنَّ صَاحِبَ الْبَحْرِ جَعَلَ الْعَقْلَ وَالْإِسْلَامَ شَرْطَ صِحَّةٍ، وَالْعَدَالَةَ وَالذُّكُورَةَ وَالطَّهَارَةَ شَرْطَ كَمَالٍ. وَقَالَ: فَأَذَانُ الْفَاسِقِ وَالْمَرْأَةِ وَالْجُنُبِ صَحِيحٌ"
ترجمہ: یہاں پر کافر کے ساتھ فاسق کا ذکر کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ بحرالرائق کے مصنف نے عاقل اور مسلمان ہونے کو اذان کی صحت کی شرط قرار دیا ہے ۔ عادل ، مذکّر اور پاک ہونے کو اذان کے کمال کی شرط قرار دیا اور فرمایا فاسق ، عورت اور جُنبی کی اذان درست ہے (کراہت تنزیہی کے ساتھ)
مذکورہ عبارت سے یہ ثابت ہوا کہ اذان کے صحیح ہونے کے لیے صرف مسلمان اور عاقل ہونا کافی ہے ۔
امام اہل سنت اعلیٰ حضرت رحمہ الله فتاویٰ رضویہ کے اندر وہابی کی اذان کے متعلق لکھتے ہیں "وہابی کی اذان اذان میں شمار نہیں جواب کی حاجت نہیں" اس کی وجہ یہ ہے کہ وہابی ایک کافر فرقہ ہے یہ لوگ ضروریات دین کا انکار کرتے ہیں ۔ علامہ شامی وہابیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہایہ صرف اپنی جماعت کو مسلمان سمجھتے ہیں اور جو ان کے عقیدے سے موافقت نہ کرے انھیں مشرک سمجھتے ہیں حتی کہ انھوں نے اھل سنت کے افراد اور علماء کو قتل کرنا جائز قرار دیا ۔ [ رد المحتار ، جلد 4 صفحہ 262 مکتبہ شاملہ]
اب سوال یہ ہے کہ دیوبندی مسلمان ہے یا کافر ؟
اس سوال کا جواب مجھ جیسا کم علم کے بجائے اھل سنت کے علمائے اکابر کی تحریر سےسمجھیں ۔ شارحِ بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی ،صدر شعبۂ افتاء ، الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور ، علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۔ "عوام کا عرف مدارِ حکم نہیں ۔ حکم کا دار و مدار حقیقی معنی پر ہے ۔ اس لیے ایسا شخص جو اپنے آپ کو دیوبندی کہتا ہو ۔ لوگ بھی اس کو دیوبندی کہتے ہوں ۔ وہ ان چاروں علماء دیوبند کو اپنا مقتدیٰ و پیشوا مانتا ہو ۔ حتی کہ اہل سنت کو بدعتی بھی کہتا ہو ، مگر ان چاروں کی مذکورہ بالا کفریات پر مطلع نہیں ۔ تو وہ در حقیقت دیوبندی نہیں ۔ اس کا یہ حکم نہیں کہ یہ شخص کافر ہو یا اس کی نمازِ جنازہ پڑھنا کفر ہو ۔ واللہ تعالیٰ اعلم" [معارفِ شارح بخاری ، صفحہ 914 ، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی]
اہل سنت کے معتمد و متبحر عالمِ دین مولانا احمد سعید کاظمی ، انوار العلوم ملتان پنجاب ، علیہ الرحمہ لکھتے ہیں ۔ "مسئلۂ تکفیر میں ہمارا مسلک ہمیشہ سے یہی رہا کہ جو شخص بھی کلمۂ کفر بول کر اپنے قول یا فعل سے التزامِ کفر کریگا ۔ ہم اس کی تکفیر میں تأمل نہیں کریں گے ۔ خواہ دیوبندی ہو یا بریلوی ، لیگی ہو یا کانگریسی ، نیچری ہو یا ندوی ، اس سلسلے میں اپنے پرائے کا امتیاز کرنا اہل حق کا شیوہ نہیں ۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ایک لیگی نے کلمۂ کفر بولا تو ساری لیگ معاذ اللہ کافر ہوگئی ۔ یا ایک ندوی نے التزامِ کفر کیا تو معاذ اللہ سارے ندوی مرتد ہو گئے ۔ ہم تو بعض دیوبندیوں کی کفری عبارات کی بنا پر ہر ساکن دیوبند کو بھی کافر نہیں کہتے ۔
ہم اور ہمارے اکابر نے بارہا اعلان کیا ہے کہ ہم کسی دیوبند یا لکھنؤ والے کو کافر نہیں کہتے ۔ ہمارے نزدیک صرف وہی کافر ہیں جنھوں نے معاذ اللہ ، اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول اور محبوبانِ یزدی کی شان میں گستاخیاں کیں اور باوجود تنبیہ شدید کے اپنی گستاخیوں سے توبہ نہیں کی ۔ نیز وہ لوگ جو ان کی گستاخیوں پر مطلع ہو کر اور ان کے صریح مفہوم کو جان کر ان گستاخیوں کو حق سمجھتے ہیں ۔ اور گستاخوں کو مومن ، اہل حق ، اپنا مقتدیٰ اور پیشوا مانتے ہیں ۔ اور بس !
ان کے علاوہ ہم نے کسی مدعی اسلام کی تکفیر نہیں کی ۔ ایسے لوگ جن کی ہم نے تکفیر کی ہے ۔ اگر ان کو ٹٹولا جائے تو بہت قلیل ہیں اور محدود ۔ ان کے علاوہ نہ کوئی دیوبند کا رہنے والا کافر ہے نہ بریلی کا ، نہ لیگی نہ ندوی ۔ ہم سب ، مسلمانوں کو مسلمان سمجھتے ہیں " [الحق المبین ، صفحہ 24 ۔ 25 ، مطبوعہ ملتان پاکستان]
مذکورہ بالا دونوں بزرگوں کی عبارتوں کو علامہ یٰسین اختر مصباحی صاحب نے اپنا مضمون "تکفیری غلط فہمی کا ازالہ" میں نقل کیا ، جس کو "روزنامہ قومی آواز" نئی دہلی انڈیا مورخہ 17 جنوری 2006 میں شائع کیا گیا تھا ۔ اور اس مضمون کو مفتی محمد مطیع الرحمٰن رضوی صاحب نے اپنی کتاب "اہل قبلہ کی تکفیر" میں شامل کیا ہے ۔
مذکورہ بالا عبارتوں سے یہ ثابت ہوا کہ ہمارے علماء جن دیوبندیوں کو کافر کہتے ہیں وہ بہت قلیل اور محدود ہیں ۔ باقی تمام دیوبندیوں کو ہمارے علماء مسلمان سمجھتے ہیں ۔
شیخ الاسلام علامہ سید مدنی میاں طوّل الله عمره اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو لوگ اکابر دیابنہ کے کفریہ عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں یعنی ان عبارتوں کا جو مفہوم اعلیٰ حضرت نے سمجھا اس مفہوم کے بجائے کوئی ایسا مفہوم نکالے جو مفہوم کفر کی طرف نہ جائے ، تو اس طرح تاویل کرنےوالے کافر نہیں ہیں لیکن گمراہ ضرور ہیں ، کیونکہ ان کا تاویل کرنا اس بات کاثبوت ہے کہ ان عبارتوں کا جو ظاہری مفہوم ہے اس سے وہ انکار کرتے ہیں ۔
آج کل کے اکثر دیوبندی مولوی ان کفریہ عبارتوں کی تاویل کرتے ہیں لہذا صرف ان کے ظاہر کو دیکھ کر انھیں کافر کہنا درست نہیں جب تک اس کا عقیدہ ،کفریہ ہونے کا یقینی علم حاصل نہ ہو ۔
دیوبندیوں کی مسجدوں سے جو اذان سنائی پڑتی ہے اس اذان کو سننے والے یقین کے ساتھ یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ اذان دینے والے کا عقیدہ حد کفر تک پہونچنا ہوا ہے ۔ لہٰذا اسے کافر سمجھنا اور اس کی اذان کو اذان نہ ماننا اھل سنت کے علمائے اکابر کے نظریہ کے خلاف ہے ۔ جب عام دیابنہ مسلمان ہیں تو ان کی اذان بھی درست ہے اور جب اذان درست ہے تو اذان جواب دینا بھی واجب ہے ۔
![]() |
جو اذان دیوبندیوں کی مسجدوں میں ہوتی ہے اس کا جواب دینا واجب ہے یا نہیں |
لیکن اس بحث سےکوئی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ اذان کی طرح دیوبندی یا کسی گمراہ کی امامت بھی درست ہے ۔ ایسا ہرگز نہیں ، بلکہ گمراہ کو امامت کا موقع دینا حرام اور اس کے پیچھے پڑھی گئی نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے ۔ طبعی طور پر سلیم الطبع لوگ ، گمراہوں سے نفرت کرتے ہیں اور متنَفَّر و مکروہ شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے ۔ در المختار میں لکھا ہے (وَلَوْ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، إنْ) الْكَرَاهَةُ (لِفَسَادٍ فِيهِ أَوْ لِأَنَّهُمْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ مِنْهُ كُرِهَ) لَهُ ذَلِكَ تَحْرِيمًا لِحَدِيثِ أَبِي دَاوُد «لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ» [در المختار مع رد المحتار جلد 1 صفحہ 559 ، مکتہ شاملہ]
كتبه : توحید الرحمٰن علائی جامعی
خادم التدریس و الافتاء بدار العلوم طیبیہ معینیہ
درگاہ شریف ، منڈواڈیہ ، بنارس
0 Comments