امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو علیہ السلام کہنا کیسا ہے

سوال:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حضرت امام حسن و امام حسین کو کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ "علیہ السلام کہو ۔ اب یہ مطلع کریں کہ کیا کہیں؟

الجواب:

حضرات امامین کریمین سیدنا امام حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو علیہ السلام نہ کہا جائے، بلکہ رضی اللہ تعالی عنہما کہا جائے۔ غیر انبیاء و ملائکہ علیہم الصلوات والتسلیمات کو انکے تابع کر کے کہنا تو جائز ودرست ہے، بغیر ان کے تابع کئے ہوئے استقلالا مکروہ ممنوع ہے اور رافضوں کا شعار ہے۔ سائل سیدی و مولائی حضرت صدر الافاضل علیہ الرحمۃ وقدس سرہ العزیز کی کتاب مستطاب سواخ کربلا کا مطالعہ کر کے دیکھے تو اس کو معلوم ہوگا کہ ساری کتاب میں ان دونوں حضرات کے لئے کسی جگہ علیہ الصلواۃ والسلام یا علیه السلام کا لفظ استقلالا نہیں لکھا گیا ہے۔ غنیہ المستملی ص ۳ میں ہے۔

والصلواة عليهم تبعاً له عليه الصلوة والسلام مشروعة بل مندوبة و اما استقلالاً فتكره الا على الانبياء والملائكة على ذالك اجماع السلف خلافاً للروافض وجه ذالك ان الصلوة و ان كانت الدعاء بالرحمة و هو جائز لكل مسلم لكن صارت مخصوصة فى لسان السلف بالانبياء والملائكة كما ان لفظ عزوجل و نحوه مخصوص بالله تعالى فكما لا يقال محمد عز و جل و ان كان عزيزا جليلاً لا يقال ابو بکر او علي صلى الله عليه وسلم و ان كان معناه صحيحاً و كذالک علیه السلام لم يعهد في لسان الشرع الا تبعاً فلا يقال فلان عليه السلام فالواجب الاتباع واجتناب الابتداع.

امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو علیہ السلام کہنا کیسا ہے
امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو علیہ السلام کہنا کیسا ہے


حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے تابع کر کے صحابہ پر صلوٰۃ بھیجنا جائز ہے، بلکہ مستحب ہے۔ البتہ انبیاء وفرشتوں کے علاوہ دیگر حضرات پر استقلالا مکروہ ہے۔ اس پر سلف کا اجماع ہے۔ اس مسئلہ میں روافض کا اختلاف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صلوٰۃ اگر چہ کہ دعاء رحمت ہے اور یہ ہر مسلمان کے لئے جائز ہے، لیکن بزرگان سلف کی زبان پر انبیاء وفرشتوں کے ساتھ خاص ہوگیا۔ جیسا کہ لفظ عزوجل وغیرہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ لہذا جس طرح محمد عز و جل نہیں کہا جائے گا۔ اگر چہ کہ آپ عزیز و جلیل ہیں۔ اسی طرح ابو بکر یا علی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں کہا جائے گا، اگر چہ کہ اس کا معنی صحیح ہے۔ اسی طرح علیہ السلام شریعت کی زبان میں انبیاء و ملائکہ کے علاوہ اگر کسی کے لئے آیا ہے تو تبعا آیا ہے۔ لہذا فلاں علیہ السلام نہیں کہا جائے گا۔ اس لئے اتباع شریعت ہی واجب ہے اور بدعت سے اجتناب ہی ضروری ہے۔ والله سبحانه و تعالی اعلم

(حبیب الفتاوی)

Post a Comment

0 Comments