امام سید طحطاوی پر امام احمد رضا کے معروضات

امام سید طحطاوی پر امام احمد رضا کے معروضات

حواشی رضویہ علی الطحطاوی سے چند شواہد

سرور مصباحی

(اتر دیناج پور,بنگال)

عاشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم,فقیہ بے نظیر, مجدد اسلام,امام اہل سنت,اعلی حضرت سیدنا امام احمد رضا محدث بریلوی قدس سرہ القوی آسمان علم و فضل کے وہ تابندہ و درخشاں آفتاب ہیں جن پر خود زندگی ناز کرتی ہے۔حدیث, تفسیر, کلام, فقہ, اصول,معانی و بیان، تاریخ، جغرافیہ، ریاضی, منطق, فلسفہ,ہیئت,جبر و مقابلہ, حساب, توقیت, عروض و قوافی, علم الفرائض وغیرہ تمام علوم دینیہ عقلیہ و نقلیہ, و عصریہ پر کامل عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ زمانہ اور اس کے حالات پر گہری نگاہ رکھتے تھے۔پوری عمر درس و تدریس,فتاوی نویسی,تصنیف و تالیف,احیاء اسلام,رد بدعات و منکرات اور تجدید عشق رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم جیسے اہم مشاغل میں صرف فرمائی اور اپنے  بعد آنے والوں کے لیے ایسا علمی و تحقیقی گنجینہ چھوڑ گئے جس سے آج پوری دنیا مستفید و مستفیض ہو رہی ہے۔آپ کی تصنیفات کی تعداد ہزار سے متجاوز ہے۔ان میں آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ"العطایا النبویہ فی الفتاوی الرضویہ " اپنی اہمیت و افادیت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے اور یقینا آج ہر فقیہ و مفتی کی ضرورت ہے۔

امام سید طحطاوی پر امام احمد رضا کے معروضات
امام سید طحطاوی پر امام احمد رضا کے معروضات

آپ جس طرح فتوی نویسی اور تصنیف و تالیف میں اپنے معاصرین پر فائق تھے اسی طرح حاشیہ نگاری میں بھی ان میں نہایت ہی ممتاز تھے۔مسلم الثبوت,صحیح البخاری نصف اول,صحیح مسلم,جامع الترمذی,شرح رسالہ قطبیہ,حاشیہ امور عامہ,شمس بازغہ,تیسیر شرح جامع صغیر,رد المحتار,حواشی الطحطاوی علی الدر المختار وغیرہ کتب کثیرہ پر آپ نے گراں قدر حواشی تحریر فرمائے جن میں کچھ تو طباعت شدہ ہیں اور اکثر ہنوز زیور طباعت سے آراستہ ہونا باقی ہے۔اور اس میں کمال کی بات یہ ہے کہ اکثر حواشی آپ نے اس وقت لکھے جب طالب علمی کے زمانے میں اپنے سبق کے لیے مطالعہ کرتے تھے۔اس کا ذکر خود امام موصوف نے اس سند اجازت میں کی ہے جو 1324 ہجری کو علمائے حرمین شریفین کو جاری کی گئی۔

راقم کو آپ کے حواشی علی الطحطاوی کے مترجم و محقق مجموعہ کے  مطالعہ کا شرف حاصل ہوا۔ اس میں جہاں آپ نے اپنی وسعت نظر,جودت فکر,کمال فقاہت,اور حسن تدقیق سے مشکل مسائل کی گرہیں کھولی ہیں اور اور جابجا کثیر جزئیات کا تحقیقی اضافہ کیا ہے وہیں حسن ادب کے ساتھ امام موصوف سے ہونے والے تسامحات پر تنبیہ بھی فرمائی ہیں۔ذیل میں چند شواہد ملاحظہ ہوں۔1:حدیث پاک"لا نبی بعدی" کا معنی بیان کرتے ہوئے امام طحطاوی نے لکھا"علما کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نیا نبی ایسی شریعت لے کر نہیں آئے گا جو میری شریعت کو منسوخ کر دے۔

اس پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے امام اہل سنت رقمطراز ہیں: اللہ کی پناہ,اس ترجمہ میں قبیح لغزش واقع ہوئی(وہ معنی نہیں جو امام طحطاوی نے بیان کیا بلکہ)معنی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی نہیں, چاہے موافق شریعت کے ساتھ ہو یا مخالف کے ساتھ, یا موافقت و مخالفت کچھ بھی نہ ہو اور یہی مسلمانوں کا ایمان ہے۔(حاشیہ:18)

2:جس طرح مطلقا تمام انبیا علیھم السلام کی بعثت پر ایمان رکھنا ضروری ہے اسی طرح ہر معین نبی کی بعثت پر بھی ایمان لازم ہے۔ لیکن امام طحطاوی نے اس کے برخلاف لکھا"کسی شخص معین کی بعثت سے انکار کفر نہیں " اس پر امام بریلوی نے تنبیہ فرمائی"یہ بات محل غور ہے۔کیونکہ نصوص متواترہ کثیرہ سے ثابت ہے کہ جس طرح مطلقا بعثت ثابت ہے اسی طرح بعثت مطلقہ کا ثبوت بھی ہے اور یہ مسئلہ ضروریات دین سے ہے۔(حاشیہ:168)

3:مسئلہ یہ ہے کہ خود معدنیات سے کسی صورت میں تیمم جائز نہیں,چاہے اپنے مقام پر ہوں یا منتقل کیے گئے ہوں, صرف ان پر لگی ہوئی مٹی سے جائز ہے۔ در مختار میں ہے"و معادن فی محالھا فیجوز بتراب علیھا"علامہ طحطاوی فرماتے ہیں"فیجوز پر فائے تفریع لانے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ پہلے معدنیات کا ذکر ہے اور بعد میں مٹی کا۔

اس پر امام اہل سنت لکھتے ہیں"یہ فا تفریعی نہیں بلکہ فی محالھا سے جو نفی ثابت ہوتی ہے اس کی علت کے طور پر فا لائی گئی ہے یعنی فی محالھا کہ کر نفس معدنیات سے تیمم کے جواز کو مطلقا منتفی کیا گیا ہے,چاہے وہ اپنے مقام پر ہوں یا کسی دوسرے مقام پر منتقل کیے گئے ہوں اور اس کی علت یہ ہے کہ تیمم مٹی سے ہو سکتا ہے ,اور جب معدنیات مٹی نہیں ہیں تو ان سے بھی تیمم ناجائز ہوگا,فتح القدیر اور بحر الرائق میں ایسا ہی ہے۔(حاشیہ:45)

4: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے کثرت سے احادیث بیان کرنے پر جب لوگوں نے انکار کیا تو آپ نے فرمایا: اگر میرے وصال سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام نے نزول فرمایا تو میں ان سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث بیان کروں گا اور وہ میری تائید کریں گے۔

اس روایت سے امام طحطاوی نے استدلال کیا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا فیصدقنی فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام سنتوں کے عالم ہیں اور افراد امت میں سے کسی فرد سے اس بات کے حصول کی انہیں احتیاج نہیں ہے حتی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ان کی مرویات کی تصدیق کے لیے حضرت علیہ السلام کی احتیاج ہے۔

محدث بریلوی اس استدلال کو خطا بتاتے ہوئے لکھتے ہیں"اس روایت سے صرف یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس بات کے عالم ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ عادل ہیں, بات کو یاد رکھنے والے ہیں اور ان کی بات پسندیدہ ہے۔(حاشیہ:19)

5:امام طحطاوی نے اپنی کتاب میں تاریخ بغداد کے حوالے سے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے طلب فقہ کے بارے میں ایک حکایت نقل کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ بچپن میں امام صاحب نے استخارہ کیا۔تو ان پر علم قرآن پیش کیا گیا,آپ نے اسے چھوڑ دیا,پھر علی الترتیب علم حدیث,علم نحو,شعر و شاعری, علم کلام پیش کیے گئے,آپ نے چھوڑ دیا۔ پھر اخیر میں علم فقہ کو اختیار فرمایا۔

امام بریلوی نے اولا اس من گھڑت واقعہ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سب کے لیے عموما اور  امام طحطاوی کے لیے خصوصا دعائے مغفرت کی پھر فرمایا: امام طحطاوی نے اپنی کتاب میں امام اعظم کے مناقب اور خرابیوں کو جمع کیا ,تعریف کرنے والوں اور طعن کرنے والوں کے کلام کو شامل کتاب کیا, آگے خطیب بغدادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں"انھوں نے اپنی تاریخ میں برائیاں کرنے والوں کے جاہلانہ خیالات کو جمع کیا اور اس کا جواب انہیں "السھم المصیب فی کبد الحطیب" نامی کتاب کے ذریعے دیا جا چکا ہے اور یہ حکایت بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اور تعجب کن بات ہے کہ کس طرح اس حکایت کو گڑھنے والے جھوٹے شخص نے اسے اس انداز سے بیان کیا کہ وہ بصورت ذم نہ ہوا اور اسی سے امام جلال الدین کو بھی مغالطہ پیدا ہوا اور انہوں نے اسے مناقب میں ذکر کیا اور پھر سید(امام طحطاوی) نے(اللہ ان کی بخشش کرے)ان کی اتباع کی۔

پھر اس روایت کی وجہ ضعف اور اس کا مذموم نتیجہ بیان فرمایا۔ اسے وہیں دیکھنا مناسب ہے۔(حاشیہ:9)

6: تنویر الابصار اور درمختار میں ہے"اگر کان وغیرہ سے پیپ بغیر درد کے نکلے تو وضو نہیں ٹوٹے گا اور اگر درد کے ساتھ برآمد ہو تو ٹوٹ جائے گا کیونکہ درد زخم کی دلیل ہے۔علامہ طحطاوی نے بحر الرائق کی عبات نقل کی جس میں اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا کہ پیپ وغیرہ درد کے ساتھ نکلیں یا بغیر درد کے,ناقض وضو ہیں کیونکہ یہ بغیر علت کے نہیں نکلتے۔

اس پر علامہ طحطاوی نے لکھا کہ اگر پیپ کان سے اس وقت نکلے جب زخم صحیح ہو چکا ہو, جس کی علامت درد کا نہ ہونا ہے لہذا یہ حصر جائز نہیں کہ پیپ جب بھی نکلتی ہے کسی علت کے باعث نکلتی ہے۔

امام طحطاوی سے اختلاف کرتے ہوئے امام بریلوی نے لکھا"میں کہتا ہوں: حصر واضح ہے کیونکہ یہ علت کے بغیر نہیں(نکلتے) اور زخم کا صحیح ہوجانا اسے کالعدم نہیں کر دیتا۔(حاشیہ:32)

7: امام طحطاوی فرماتے ہیں:" حلبی نے فرض میں متابعت کو فرض قرار دیا ہے حالانکہ (مطلقا)ایسا نہیں بلکہ(اس میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ) اگر مطلقا فرض کی ادائیگی مراد ہے چاہے امام کے ساتھ ہو یا بعد میں تو پھر بات ٹھیک ہے اور اگر مراد یہ ہے کہ امام کے ساتھ مل کر فرض کی ادائیگی فرض ہے تو یہ قطعا واجب ہے۔

اس پر اعلی حضرت نے لکھا:" میں کہتا ہوں: یہ واجب نہیں بلکہ واجب عدم تاخیر ہے بایں معنی کہ مقتدی کا فعل امام کے اس فعل سے فراغت کے بعد نہ ہو, لیکن جہاں تک قران کا تعلق ہے تو وہ سنت ہے۔ جیسا کہ علامہ شامی نے تحقیق فرمائی,علامہ شامی فرماتے ہیں" والمتابعۃ المقارنۃ بلا تعقیب و لاتراخ سنۃ عندہ لاعندھما( ردالمحتار, جلد: 1,ص: 316)

(حاشیہ:63)

8: مسئلہ: ایک شخص نے نماز شروع کی, ابھی فاتحہ(مکمل یا بعض) پڑھی تھی کہ دوسرے شخص نے اس کی اقتدا کی, تو اب بوجہ امامت جہری نماز میں جہر واجب ہے لیکن اگر باقی میں جہر کرے تو لازم آئے گا کہ ایک ہی نماز میں بلند اور آہستہ آواز کی قرات جمع ہوجائے, یہ امر شنیع ہے اور اگر آہستہ پڑھے تو وجوب جہر کے بعد عدم جہر لازم آتا ہے لہذا پڑھی ہوئی قرات کو لوٹائے۔ امام طحطاوی فرماتے ہیں:"ظاہر یہ ہے کہ اعادہ میں اول کی موافقت کرے یعنی آہستہ پڑھے۔

امام بریلوی لکھتے ہیں:" میں کہتا ہوں: یہ کیسے ہو سکتا ہےِ جب کہ غنیہ میں اسی مسئلہ کے بعد مذکور ہے"اگر اس نے ایک یا زیادہ آیات آہستہ پڑھی ہوں تو نماز کو بلند قرت کے ساتھ پوری کرے اور پڑھی ہوئی قرات کو دوبارہ نہ پڑھے اور یہی رد المحتار میں بھی ہے"(حاشیہ:64)

9: امام طحطاوی نے فرمایا"اگر عورت باوجود (حیض و نفاس سے)پاک ہونے کے خاوند کے بلانے پر حاضر نہ ہو تو خاوند اسے سزا دے سکتا ہے۔

اس پر امام بریلوی نے لکھا:"(صرف طہارت کی قید کافی نہیں بلکہ)مناسب تھا کہ ایسی مرض سے سلامتی کی قید لگائی جاتی جس کے ساتھ جماع موافق نہیں یا ضرر رساں ہے,اسی طرح عورت کا بالغ ہونا بھی ضروری ہے۔(حاشیہ:132)

10: امام طحطاوی فرماتے ہیں:"قبر پر چلنا,بیٹھنا,سونا,پیشاب کرنا, پاخانہ کرنا اور نماز پڑھنا اسی طرح قبر کے پاس نماز پڑھنا مکروہ ہے کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے اور اسی سے زائرین قبور کا حکم بھی معلوم ہوگیا۔

امام اہل سنت نے امام طحطاوی کے اس قول کو بعض قیود کے ساتھ مقید کیا اور مطلقا نہی کے قول کو غلط قرار دیا, آپ رقمطراز ہیں"قبر پر یا قبر کی طرف(بغیر پردہ حائل ہونے کے)نماز پڑھنا منع ہے اور یہ اس وقت ہے جب وہ اس نمازی کی نظروں کے سامنے ہو اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھ رہا ہو, یوں ہی جب کہ اس کے پہلو میں ہو لیکن جب ان باتوں سے خالی ہو اور کسی قبر کے پاس نماز پڑھے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی یہ منع ہے اور اگر وہ کسی نیک شخص کی قبر کے پاس اس کی برکت سے متمتع ہونے کی نیت سے نماز پڑھے تو یہ عمدہ بات ہے, جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوی میں تحقیق کی ہے, و اللہ اعلم(حاشیہ:93)

اس مختصر جائزے کی روشنی میں امام احمد رضا قدس سرہ کی وسعت مطالعہ, دقت نظر,تبحر و فقاہت اورقوت استحضار خوب خوب عیاں ہوگئی۔ساتھ ہی میں یہ بھی کھل کر سامنے آگیا کہ اکابر اسلام اور اپنے پیش رو علما و محققین کے لیے آپ کے دل میں کتنا ادب و احترام تھا۔آپ نے سید امام طحطاوی رحمہ الباری کی جلالت علم و فضل اور رفعت شان پوری طرح ملحوظ رکھ کر,دلائل کے ساتھ ان سے  اختلاف کیا ہے اور کہیں بھی حسن ادب کا دامن نہیں چھوڑا ہے۔ اللہ ہمیں امام امام احمد رضا اور امام سیداحمد  طحطاوی رحمھما کے فیضان علم و ادب سے مالا مال فرمائے۔آمین بجاہ النبی الأمین صلی اللہ علیہ و سلم

Post a Comment

0 Comments