علامہ شامی پر امام احمد رضا کے معروضات

سرور مصباحی

(اتر دیناج پور,بنگال)

فقہ و افتا سے تعلق رکھنے والے حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ رد المحتار کا علمی و فقہی مقام کیا ہے۔ در مختار شرح تنویر الابصار کے مسائل و ضوابط کے اصول منقول عنھا اور دیگر مآخذ کی مراجعت,بہت سے اہم اور مفید فروع,مختلف الاسباب واقعات و جزئیات,دلکش مباحث اور عظیم نکات کے اضافے,الجھی گتھیوں کے سلجھاؤ, تہ زریں میں پڑے موتیوں کے استخراج,مشکل مسائل کی توضیح, پیچیدہ جزئیات کے بیان, ارباب حواشی کے کمزور اعتراضات کے جوابات اور راجح اور مرجوح کی تعیین پر مشتمل ایک ایسا فقہی انسائیکلوپیڈیا ہے جو آج تمام فقہائے حنفیہ کا مرجع و معتمد ہے۔ نائب مفتی اعظم ہند,شارح بخاری, حضرت مفتی شریف الحق امجدی قدس سرہ لکھتے ہیں"فقہ حنفی میں رد المحتار کی حیثیت خاتم التصانیف کی ہے۔ ائمۂ مجتھدین کے عہد مبارک سے لے کر بارہویں صدی تک فقہ حنفی پر مختصر,مطول جتنی کتابیں لکھی گئیں رد المحتار ان سب کا عطر تحقیق ہے۔ رد المحتار کے مصنف اپنے عہد میں یگانۂ فرد تھے۔ کثرت مطالعہ,قوت حفظ,ذکاوت,فطانت,دقیقہ سنجی,نکتہ فہمی, استحضار, قوت اخذ و استنباط میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ سینکڑوں کتب فقہ کے مطالعے اور ان کی سطر سطر ذہن میں رکھ کر مکلمل بیدار مغزی,تیقظ اور حضور ذہن کے ساتھ انہوں نے رد المحتار کو ایسا کامل و اکمل اور آراستہ و پیراستہ کر دیا ہے کہ اس میں نہ تو موافق کو اضافے کی گنجائش نظر آتی ہے نہ مخالف کو مجال دم زدن۔"

رد المحتار کے اس مختصر مگر نہایت ہی جامع تعارف کے بعد ذرا غور فرمائیں کہ کیا ایسے جلیل القدر حاشیہ پر بھی کسی حاشیہ کی ضرورت تھی۔ ہم جیسے بے مایہ اور کم علموں کا جواب تو یہی ہوگا کہ ہرگز نہیں ۔لیکن سیدی امام احمد رضا قدس سرہ کو اللہ نے وہ تبحر و استحضار عطا فرمایا تھا کہ اس فقہ حنفی کے خاتم التصانیف بھی پر ایسا عظیم الشان علمی و تحقیقی حاشیہ رقم فرمایا کہ قاری کو جابجا یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر جد الممتار نہ ہوتی تو صرف رد المحتار سے بہت سے مسائل سمجھ میں نہ آتے اور نہ جانے کتنی جگہ غلط فہمی اور بعض جگہ غلطیوں میں مبتلا رہتے۔

علامہ شامی پر امام احمد رضا کے معروضات
علامہ شامی پر امام احمد رضا کے معروضات

اس میں سہو و خطا کی تصحیح,مسائل کی تنقیح, اختلافات میں تطبیق,مبہمات کی توضیح,متروکات کی تکمیل,دلائل کی فراہمی,استنباط کی قوت,جزئیات کا احاطہ ,قواعد پر نظر, اصول افتا کی رعایت وہ سبھی کچھ ہے جو ایک معتبر اور معتمد شرح کی شان ہوتی ہے۔

ہم یہاں صرف اس سے علامہ شامی پر کیے گئے چند رضوی معروضات و تطفلات پیش کرتے ہیں جن سے امام بریلوی کی دقت نظر اور شان عبقریت پر زبردست روشنی پڑتی ہے۔

1: در مختار میں ہے کہ کتاب پر قلمدان رکھنا مکروہ ہے مگر لکھنے کے لیے۔

اس پر علامہ شامی نے لکھا"ظاہر یہ ہے کہ لکھنے کے لیے بھی کتاب پر رکھنے کی اجازت اس وقت ہوگی جب رکھنے کی ضرورت ہو۔(رد المحتار,ص:19)

امام احمد رضا نے"و الظاھر" پر اعتراض کرتے ہوئے تحریر فرمایا"یہ استظہار(ظاہر کہنے) کا موقع نہیں بلکہ وہی قطعی طور پر متعین ہے(یعنی صرف برائے ضرورت ہی رکھ سکتے ہیں,بلا ضرورت نہیں)۔(جد الممتار,ص:22)

2: فتاویٰ تاتارخانیہ باب صدقۃ الفطر میں ہے"حسن بن علی سے اس عورت کے بارے میں سوال ہوا جس کے پاس جواہر اور موتیوں کے زیورات ہیں جنہیں وہ عیدوں کے مواقع پر اور شوہر کے سامنے آرائش کے طور پر پہنتی ہے,یہ تجارت کی غرض سے نہیں ہیں۔ کیا ایسی عورت پر صدقۂ فطر واجب ہے؟۔۔۔۔۔انہوں نے فرمایا! ہاں جب بقدر نصاب ہوں۔۔۔۔اور اس سے متعلق عمر حافظ سے سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اس پر کچھ نہیں "

اس عبارت سے معلوم ہوا کہ حسن بن علی کے نزدیک عورت کے موتی اور جواہر کے زیورات اگر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائیں تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہے اور عمر حافظ کے نزدیک اس پر کچھ واجب نہیں۔

علامہ شامی اس عبارت کو نقل کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں"اس کا حاصل در اصل اس بات میں اختلاف ہے کہ سونے چاندی کے علاوہ دیگر زیورات حاجت اصلیہ سے ہیں یا نہیں ؟"(رد المحتار,جلد:2,ص:65, باب المصرف) یعنی مذکورہ اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے اختلاف پر ہے۔ جو لوگ سونے چاندی کے علاوہ دیگر زیورات کو حاجت اصلیہ سے شمار کرتے ہیں ان کے نزدیک اس عورت پر صدقۂ فطر اور زکوٰة نہیں اور جو حاجت اصلیہ سے شمار نہیں کرتے ان کے نزدیک اس پر صدقۂ فطر ہے۔

اس پر امام احمد رضا رقمطراز ہیں"میں کہتا ہوں: ہمارے علمائے حنفیہ کا اس پر اجماع ہے کہ زیورات میں زکوٰة واجب ہے, اگر یہ حاجت اصلیہ سے ہوتے تو زکوٰة واجب نہ ہوتی, تو کوئی جائے اختلاف نہ رہی "(جد الممتار, جلد: 2, ص : 13,باب المصرف)

اس استدلال کی توضیح یہ ہے کہ حنفیہ کا اس پر اجماع ہے کہ سونے چاندی کے زیورات پر زکوٰة فرض ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ زیورات حاجت اصلیہ سے نہیں, اس لیے کہ حاجت اصلیہ کے سامانوں پر زکوٰة فرض نہیں۔ اور جب سونے چاندی کے زیورات حاجت اصلیہ سے نہیں تو ہیرے جواہر اور موتیوں کے زیورات بھی حاجت اصلیہ نہیں۔۔۔لہذا یہ اگر نصاب کی مقدار کو پہنچ جائیں تو بلا اختلاف ان پر زیورات کی وجہ سے صدقۂ فطر واجب ہوگا۔

3: کتب فقہ میں مذکور ہے کہ کہ طلاق اس وقت واقع ہوتی ہے جب اس کی اضافت عورت کی جانب ہو یا اس کے کسی ایسے جزء کی جانب جس سے کل کی تعبیر کی جاتی ہے۔ اس قاعدے کی تفریع میں یہ ہےکہ شرمگاہ کی طرف اضافت میں طلاق واقع ہوجائے گی اور ہاتھ کی طرف اضافت میں واقع نہ ہوگی کیوں کہ اول سے کل کی تعبیر ہوتی ہے اور دوم سے کل کی تعبیر نہیں ہوتی۔ اس تفریع پر امام محقق ابن الھمام نے ایک اعتراض وارد کیا ہے جس کا علامہ شامی نے جواب دیا ہے۔ رد المحتار کے الفاظ میں اعتراض و جواب کی تفصیل یہ ہے:

" فتح القدیر میں یہ اعتراض وارد کیا ہے کہ اگر اعتبار شہرت تعبیر کا ہے تو لازم ہے کہ شرمگاہ کی طرف اضافت سے بھی طلاق واقع نہ ہو۔۔کیوں کہ اس سے بھی کل کی تعبیر معروف و مشہور نہیں ۔۔۔اور اگر اعتبار اس کا ہے کہ بعض اہل زبان کے استعمال میں تعبیر پائی جاتی ہو تو لازم ہے کہ ہاتھ کی جانب اضافت میں بھی بلا کسی اختلاف کے طلاق واقع ہو۔ کیوں کہ کل کی تعبیر میں ہاتھ کا اطلاق ثابت ہے۔ باری تعالی کا ارشاد ہے"ذلک بما قدمت یداک" یہ اس کا بدلہ ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا۔۔یعنی تو نے آگے بھیجا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے"علی الید ما أخذت حتی ترد" ہاتھ کے ذمہ ہے جو اس نے لیا یہاں تک کہ واپس کرے۔

قلت:" قد یجاب بأن المعتبر الأول"۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اعتبار اول کا ہے یعنی شہرت تعبیر کا اعتبار ہے۔ مگر یہ ضروری نہیں کہ تمام لوگوں کے یہاں اس کے ذریعہ کل کی تعبیر پائی جاتی ہو,بلکہ صرف اس قدر بولنے والے کے عرف میں ہو مثلا اس کے شہر میں یہ تعبیر رائج ہو۔ تو ہاتھ کی جانب اضافت سے بھی طلاق واقع ہو جائے گی جب کہ اس کے ذریعہ کل کی تعبیر مشتہر ہو, اور شرمگاہ کی طرف اضافت سے طلاق واقع نہ ہوگی جب کہ تعبیر مشہور نہ ہو پھر میں نے دیکھا کہ فتح القدیر کے کلام سے بھی یہ جواب مستفاد ہوتا ہے"(رد المحتار, جلد:2,ص:435,باب الصرف)

یہ تھا علامہ شامی کا جواب,اب اس پر جد الممتار کی تنقید پھر اصل اعتراض کا حل ملاحظہ ہو:

اقول: "یہ جواب میری سمجھ میں نہیں آتا اور اعتراض سے اس کا کوئی لگاؤ بھی معلوم نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ امام محقق رحمۃ اللہ علیہ کو اس سے انکار نہیں کہ مدار عرف پر ہے, نہ اس سے کہ اگر کسی قوم کے یہاں کل کی تعبیر ہاتھ سے بلکہ انگلی سے یا انگلی کے پور سے بھی متعارف ہو تو اس سے طلاق واقع ہو جائے گی۔ بلاشبہ ایسا ہی جب کہ طلاق دینے والا اسی قوم سے ہو, بلکہ محل نظر یہ ہے کہ وہ کون سا امر پایا جا رہا ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ شرمگاہ کے لفظ سے طلاق واقع ہوجائے اور ہاتھ کے لفظ سے واقع نہ ہو۔ اگر موجودہ حالت دیکھی جائے تو دونوں میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے اس لیے کہ ہاتھ کی طرح شرمگاہ سے بھی کل کی تعبیر رائج و مشہور نہیں اور فی الجملہ تعبیر ہونے کا لحاظ ہو تو شرمگاہ کی طرح ہاتھ سے بھی کل کی تعبیر واقع و ثابت ہے۔ تو علما کا یہ ارشاد کہ شرمگاہ کی طرف اضافت میں طلاق واقع ہوجائے گی اور ہاتھ کی طرف اضافت میں واقع نہ ہوگی وجہ فرق بتانے کا محتاج ہے۔۔ یہ ہے اعتراض کا مقصد۔۔۔اور جواب کو اس سے کوئی مس نہیں, جیسا کہ واضح ہے۔

میرے خیال سے معاملہ یہ ہے کہ ائمہ کے زمانے میں شرمگاہ کے لفظ سے کل کی تعبیر متعارف تھی, پھر ختم ہوگیا۔۔۔اور ہاتھ کے لفظ سے اس کی تعبیر متعارف نہ تھی۔۔۔جیسا کہ اب بھی یہی حال ہے۔ تو اس زمانے کے تقاضائے عرف کے مطابق دونوں کا حکم الگ الگ منقول ہوتا چلا آیا۔۔۔اگرچہ عرف جدید کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں میں طلاق واقع نہ ہو۔ فلیتامل" (جد الممتار,جلد:2, ص:156,باب الصریح)

4: علامہ شامی نے تعلیق طلاق کے ایک مسئلہ کی صورت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "قضاء ایک طلاق واقع ہوگی اور تنزھا دو" (رد المحتار, جلد:2,ص:454,باب الصریح)

اس پر جد الممتار میں محدث بریلوی نے لکھا" اقول: ھذا من زلۃ الفاضل المحشی۔ دیانت اور تنزہ کے حکم میں بڑا فرق ہے جیساکہ ص832 پر مسئلۂ تعلیق میں ہم اس کی وضاحت کریں گے۔ مناسب یہ تعبیر ہے کہ اول کو حکم و فتوی پر اور دوم کو تنزہ و تقوی پر محمول کیا جائے گا"(جد الممتار ,جلد:2,ص:161)

5: علامہ شامی نے محیط کے حوالے سے نقل کیا کہ امام محمد نے سیر کبیر میں بیان فرمایا ہے کہ اس میں حرج نہیں کہ مسلمان کسی حربی یا ذمی کافر کو ہدیہ دے اور اس سے قبول کرے(رد المحتار,جلد:2,ص:67,باب المصرف)

اس پر اعلی حضرت نے تنبیہ فرمائی کہ کتاب الوصایا ص643 پر آ رہا ہے کہ یہ امام سرخسی کی شرح سیر کبیر کی عبارت ہے, امام محمد کا کلام نہیں ۔(جد الممتار,جلد:2,ص:14)

6: متن و شرح میں ہے"اگر ایک گواہ کی موجودگی میں اپنی عاقل بالغ لڑکی کا نکاح کردیا تو ہوجائے گا اگر وہاں لڑکی بھی موجود ہو, اس لیے کہ وہی عقد کرنے والی قرار دی جائے گی(اور باپ گواہ دوم قرار پائے گا) ورنہ نہیں۔

اس کے تحت رد المحتار میں یہ عبارت ہے جو حاشیۂ طحطاوی سے اور اس میں حاشیۂ ابو السعود سے منقول ہے:"یعنی اگر لڑکی موجود نہ ہو تو عقد نافذ نہ ہوگا بلکہ اس کی اجازت پر موقوف رہے گا,جیساکہ حموی میں ہے۔ اس لیے کہ باپ کی حالت فضولی سے کم تر نہیں اور فضولی کا عقد باطل نہیں ہوتا"(رد المحتار,جلد:2,ص:274,کتاب النکاح)

اس پر امام بریلوی نے لکھا" اقول: یہ قطعا باطل ہے۔ صرف ایک گواہ سے نکاح کیسے ہوجائے گا؟ اور جو منعقد ہی نہیں ہوا وہ موقوف کیسے رہے گا یا خود عاقد ہی کو شاہد کیسے مان لیا جائے گا؟ جب کہ تمام تر علمائے کرام کی تصریحات اس کے برخلاف موجود ہیں۔ اگر یہ درست ہوتا کہ عاقد ہی ایک گوہ بھی ہوجائے تو(متن و شرح میں مذکور) پہلے مسئلہ میں باپ کی موجودگی کی اور دوسرے مسئلہ میں عورت کی موجودگی کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ یوں تو اس اصل ہی کو باطل کر دینا ہے جس پر ان مسائل کی بنیاد قائم ہے"(جد الممتار,جلد:2,ص:73)

7: قنیہ میں ہے"میں کہتا ہوں: ہمارے زمانے میں تاتاریوں کے فتنۂ عام کے بعد یہ ممالک جیسے خوارزم,ماوراء النھر,خراسان وغیرہ جن پر انہوں نے تسلط حاصل کر لیا اور اپنے احکام جاری کردیے سب بحکم ظاہر دار الحرب ہوگئے۔ تو ان میں اگر شوہر اپنی بیوی پر اس کے ارتداد کے بعد قبضہ پالے تو وہ اس کا مالک ہو جائے گا اور اس کی ضرورت نہ ہوگی کہ سلطان سے اس کو خریدے۔ غلامی کے حکم پر فتوی دیا جائے گا تاکہ ان جاہلوں,مکاروں کے مکر و کید کی جڑ کٹے جیسا کہ سیر کبیر میں اشارہ ملتا ہے"

یہ عبارت در مختار میں مختصرا اور رد المحتار میں کاملا منقول ہے۔(رد المحتار,جلد:2,ص:393,باب نکاح الکافر)

اس پر اعلی حضرت نے لکھا"اس عبارت میں دو باتیں محل نظر ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں محض احکام کفر جاری ہوجانے کی بنیاد پر دار الاسلام کو دار الحرب قرار دیدیا جب کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کے نزدیک جب تک کوئی حکم اسلام باقی ہے دار الاسلام,دار الاسلام ہی رہتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ شوہر اور اس کی مرتدہ عورت دونوں ابھی دارالحرب میں ہیں۔ وہیں شوہر کو اس پر قبضہ حاصل ہوگیا۔صرف اتنے ہی سے شوہر کو اس کا مالک قرار دیدیا جب کہ اس کو وہ ابھی دار الاسلام میں نہ لایا تو اس کا مالک کیسے ہوجائے گا؟ کتب مذہب اس سے لبریز ہیں۔(کہ تملک کے لیے دار الاسلام کی حد میں لانا شرط ہے) ملاحظہ ہو ہدایہ باب الغنائم,اور باب استیلاء الکفار سے ذرا پہلے ہدایہ,فتح القدیر اور در مختار کی عبارتیں"(جد الممتار,جلد:2,ص:133)

"تلک عشرۃ کاملہ" کے مطابق دس شواہد تحریر کرنے کا ارادہ تھا۔لیکن طوالت سے بچتے ہوئے اتنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ اہل علم جد الممتار اور فتاوی رضویہ کا مطالعہ کر کے کثیر ایسی مثالیں نکال سکتے ہیں جن میں امام بریلوی نے علامہ شامی پر تنقیدی یا تائیدی تطفل فرمایا ہے۔

خیر! مذکورہ عبارتوں ہی سے قاری بخوبی اندازہ کر سکتا ہے کہ اللہ رب العزۃ نے امام احمد رضا کو کیسی فقاہت اور ژرف نگاہی سے نوازا تھا کہ بہیترے وہ مسائل جن تک علامہ ابن عابدین شامی جیسے متبحر اور بے مثال فقیہ کی نگاہ نہ پہنچی امام احمد رضا نے اپنی وسعت نظر, فقہی دقیقہ سنجی,علمی استحضار اور کمال استدلال سے اس طرح ان کا حل پیش فرمایا ہے کہ بصیرت جھوم اٹھتی ہے۔

واضح رہے کہ یہ مسائل براہ راست جد الممتار سے نہیں بلکہ"امام احمد رضا کی فقہی بصیرت" سے ماخوذ ہیں۔جس میں استاذ گرامی حضور خیر الاذکیاء دام ظلہ العالی نے جد الممتار کے تعارف کے پیش نظر  یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ جمع فرما دیا ہے۔ وہاں مسائل مختلف عناوین کے تحت متفرق طور پر جمع ہیں۔ان میں سے جن مسائل میں تطفل و معروضہ کا پہلو نکلتا ہے, راقم نے ان میں سے کچھ کا انتخاب کر کے اس مختصر میں یکجا کر دیا۔ فالحمد للہ علی ذلک۔

Post a Comment

0 Comments