محدثین جب کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے

سرور مصباحی

(اتر دیناج پور,بنگال)

وقت کا کارواں جوں جوں اپنا قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہے مطالعہ و تحقیق سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔کسی بھی موضوع پر کتب معتبرہ کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنے اور اس کے تمام تر گوشوں پر غور و خوض کر کے نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے سوشل میڈیائی مواد, غیر معتبر بیانات اور غیر معیاری کتابوں پر حکم کی بنیاد رکھنا اس دور قحط الرجال میں کافی حد تک عام ہوچکا ہے۔جو یقینا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

کچھ لوگوں پر عجیب خبط سوار رہتا ہے کہ انھیں ہر مسئلے میں صرف بخاری و مسلم کی احادیث چاہیے وہ بھی صحاح۔اور جہاں دیکھتے ہیں کہ حدیث صحیح نہیں,فورا ہی اپنی جہالت کا بین ثبوت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ حدیث غیر صالح و ناقابل اعتبار ہے,کوئی دوسری پیش کریں جو صحیح ہو" بلکہ کچھ عقل سے پیدل,جاہل و ناعاقبت اندیش افراد تو اسے باطل و موضوع تک قرار دے دیتے ہیں۔العیاذ باللہ

بلاشبہ یہ مطالعہ کی کمی اور تحقیق و جستجو سے دوری کا نتیجہ ہے و بس۔ورنہ اتنی صریح غلطی کم سے کم اصحاب علم و تحقیق کے تو شایان شان نہیں ۔

رواۃ کے احوال کی تحقیق و تفتیش کے بعد محدثین نے احادیث کے کچھ مدارج و مراتب مقرر کیے ہیں۔اس کا اجمالی بیان یہ ہے کہ احادیث میں سب سے اعلی صحیح لذاتہ ہے پھر صحیح لغیرہ پھر حسن لذاتہ پھر حسن لغیرہ پھر ضعیف بضعف قریب اس حد تک کہ صلاحیت اعتبار باقی رہے مثلا وہ حدیث جس میں اختلاط راوی یا سوء حفظ یا تدلیس وغیرہا کے سبب ہلکا ضعف آ گیا ہو۔

محدثین جب کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے
محدثین جب کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے

اول کی تین بلکہ ایک مذہب پر چاروں قسموں کو اسم ثبوت متناول ہے اور سب قابل احتجاج ہیں۔ جب کہ آخر کی قسم صالح ہے جو متابعات و شواہد میں کام آتی ہے اور کبھی جابر سے قوت پاکر حسن لغیرہ بلکہ صحیح لغیرہ ہوجاتی ہے,اس وقت وہ صالح احتجاج ہو کر قبول فی الاحکام کے زیور گرانبار سے آراستہ ہوجاتی ہے۔ورنہ فضائل میں تو اس کے بغیر ہی مقبول ہے۔

پھر چھٹے درجے میں ضعیف بضعف قوی و وہن شدید ہے جیسے وہ حدیث جس کا راوی فسق وغیرہ قوادح قویہ کے سبب متروک ہوجائے بشرطیکہ ہنوز کذب سے دور و نفور ہو۔ یہ حدیث احکام میں احتجاج تو دور,اعتبار کے بھی لائق نہیں,ہاں فضائل میں مذہب راجح پر مطلقا اور بعض کے نزدیک تعدد مخارج و تنوع طرق کے ذریعہ انجبار کے بعد مقبول ہے۔

اس کے بعد مطروح کا درجہ ہے جس کا مدار وضاع, کذاب یا متھم بالکذب ہو۔ یہ بد ترین قسم ہے۔بلکہ بعض محاورات کی رو سے مطلقا اور ایک اصطلاح پر اس کی نوع اشد یعنی جس کا مدار کذب پر ہو, عین موضوع ہے۔یا نظر تدقیق میں یوں کہیے کہ ان اطلاقات پر داخل موضوع حکمی ہے۔

پھر سب سے آخری درجہ موضوع کا ہے۔ بالاجماع یہ نہ قابل انجبار ہے نہ فضائل وغیرہا کسی باب میں لائق اعتبار ۔بلکہ اسے حدیث کہنا ہی توسع و تجوز ہے۔حقیقۃ حدیث نہیں, محض مجعول و افتراء ہے۔

اس مختصر مگر جامع گفتگو سے یہ مکمل طور پر آشکارا ہوجاتا ہے کہ حدیث کے صحیح نہ ہونے اور موضوع ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔صحیح سب سے اعلی ہے جب کہ موضوع سب سے بد تر اور وسط میں درجہ بدرجہ چھ مزید اقسام حدیث ہیں۔

اتنے پر بھی اطمینان نہیں تو اب کچھ عبارات علما بھی ملاحظہ ہوں جن میں اس بات کی خاص صراحت موجود ہے کہ ہرگز انتفائے صحت ثبوت وضع کو مستلزم نہیں ۔1:امام بدر الدین زرکشی کتاب النکت علی ابن الصلاح,امام جلال الدین سیوطی لآلی مصنوعۃ,علامہ علی بن محمد بن عراق کنانی تنزیہ الشریعۃ المرفوعۃ عن الأخبار الشنیعۃ الموضوعۃ اور علامہ محمد طاہر فتنی خاتمۂ مجمع بحار الأنوار میں رقمطراز ہیں"بین قولنا لم یصح و قولنا موضوع بون کبیر,فان الوضع اثبات الکذب و الاختلاق, و قولنا لم یصح لا یلزم منہ اثبات العدم و انما ھو اخبار عن عدم الثوت,و فرق بین الامرین"(مجمع بحار الانوار,506/3)

2:امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں"لا یلزم من کون الحدیث لم یصح أن یکون موضوعا"(القول المسدد فی الذب عن مسند احمد, الحدیث السابع,ص:45)

3:امام سیوطی التعقبات علی الموضوعات میں فرماتے ہیں"أکثر ما حکم الذھبی علی ھذا الحدیث أنہ قال:متن لیس بصحیح,و ھذا صادق بضعفہ"(التعقبات علی الموضوعات,باب بدء الخلق و الانبیاء,ص:49)

4:حضرت ملا علی قاری موضوعات میں زیر بیان احادیث نقل فرماتے ہیں"لا یلزم من عدم الصحۃ وجود الوضع کما لایخفی(موضوعات الکبیر,ص:318)

5: اسی میں روز عاشوراء سرمہ لگانے والی حدیث پر امام احمد بن حنبل کا حکم"لا یصح ھذا الحدیث "نقل کر کے فرماتے ہیں:" قلت لا یلزم من عدم الصحۃ ثبوت وضعہ و غایتہ أنہ ضعیف "(موضوعات الکبیر,بیان احادیث الاکتحال یوم عاشوراء,ص:341)

6:علامہ طاہر صاحب مجمع تذکرۃ الموضوعات میں امام سند الحفاظ عسقلانی سے ناقل" أن لفظ"لا یثبت "لا یثبت الوضع فان الثابت یشمل الصحیح فقط و الضعیف دونہ" (مجمع تذکرۃ الموضوعات,الباب الثانی فی اقسام الواضعین,ص:7)

ان اقوال جلیلہ سے عیاں ہوگیا کہ محدثین کرام اگر کسی حدیث کے متعلق فرمائیں کہ صحیح نہیں تو اس کا ہرگز یہ معنی نہیں کہ وہ غلط و باطل ہے بلکہ صحیح ان کی اصطلاح میں سب سے اعلی درجہ کی حدیث ہے جس کے شرائط سخت و دشوار اور موانع و علائق بسیار ہیں۔ لہذا جب بھی ان شرائط میں کوئی کمی دیکھتے ہیں تو فرما دیتے ہیں"یہ حدیث صحیح نہیں" یعنی اس درجۂ علیا کو نہ پہنچی۔ اس سے دوسرے درجے کی حدیث کو حسن کہتے ہیں جو خود قابل احتحاج و استناد ہے۔اور سینکڑوں کی تعداد میں صحیح مسلم وغیرہ کتب صحاح بلکہ عند التحقیق بعض صحیح بخاری میں بھی موجود ہیں۔لہذا غیر صحیح کو مطلقا ناقابل حجت یا موضوع قرار دینا کسی جاہل اجہل ہی کا حصہ ہے۔

(تلخیص و تسہیل مع اضافہ از رسالہ"منیر العینین فی حکم تقبیل الابھامین,فتاوی رضویہ,جلد:5)

Post a Comment

0 Comments